قرآن مجيد

سورة المائده
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ[114]
عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اتار، جو ہمارے پہلوں اور ہمارے پچھلوں کے لیے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔[114]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 114، 115،

باب

اب عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گزار نے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لیے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لیے کافی وافی ہونا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں یا اللہ یہ تیری قدرت کی ایک نشانی ہوگی اور میری سچائی کی بھی کہ تونے میری دعا قبول فرما لی، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں انہیں پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما تو تو بہترین رازق ہے۔‏‏‏‏

اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ” اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو “۔

جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے «وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ» ‏‏‏‏ [40-غافر:46] ‏‏‏‏ کہ ” تم سخت تر عذاب میں داخل ہو جاؤ “، اور «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا» [4-النساء:145] ‏‏‏‏ ” جیسے منافقوں کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے اور تم ان کا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے “۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہو گا، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعد انکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو۔


اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اللہ کے لیے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا۔‏‏‏‏ انہوں نے تیس روزے پورے کرکے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ علیہ السلام بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے۔ عیسیٰ علیہ السلام نے پہلے تو انہیں سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں، جہاں یہ تھے وہیں وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اٹھے۔

ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لیے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا، جس کی سزا میں وہ سور بندر بن گئے ۔ [سنن ترمذي:3061،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس میں جنت کے میوے تھے، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کردیں، پھر سخت عذاب کئے گئے، اے عرب بھائیو! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑتے تھے، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں بتا دیا کہ ” عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہو جانا “ لیکن واللہ دن رات وہی ہیں اور تم وہ نہ رہے، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پڑے۔

اسحٰق بن عبداللہ فرماتے ہیں جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہو جائے اور کل کے لیے ہمارے پاس کچھ نہ رہے۔ مجاہد رحمة الله سے مروی ہے کہ جب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ رحمة الله فرماتے ہیں گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا۔ وہب بن منبہ رحمة الله فرماتے ہیں ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اترتے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر روٹیاں جو کی تھیں۔

سعید بن جیبررحمہ اللہ فرماتے ہیں اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں۔ عکرمہ رحمة الله فرماتے ہیں اس پر چاول کی روٹی تھی، وہب رحمة الله فرماتے ہیں کہ ان کے اس سوال پر عیسیٰ علیہ السلام بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہوگا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام سے نشان طلب کیا تھا۔‏‏‏‏

لیکن حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں آپ علیہ السلام ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ علیہ السلام اٹھے، صوف کا جبہ اتار دیا، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی، وضو کرکے غسل کرکے، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہوگئے، دونوں پیر ملائے، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی، انگلیاں بھی ملالیں، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، نگاہیں زمین میں گاڑ لیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کر دی، آنسو رخساروں سے بہ کر داڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی۔

اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا، جسے اترتے ہوئے سب نے دیکھا، سب تو خوشیاں منا رہے تھے لیکن روح اللہ علیہ السلام کانپ رہے تھے، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کرے، ذرا بے ادبی ہوئی تو مارے گئے۔

زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں توفیق عطا فرما، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہمارے لیے سبب غضب نہ بنا، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر۔‏‏‏‏

یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آ رہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی، عیسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گر پڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھی اس دستر خوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے، مسیح علیہ السلام نے فرمایا کون نیک بخت جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے؟ حواریوں نے کہا اے کلمتہ اللہ آپ علیہ السلام سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے؟ یہ سن کر عیسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے، نئے سرے سے وضو کیا، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بنا دیا جائے۔‏‏‏‏

پھر واپس آئے اور «بِسْمِ اللَّهِ خَيْرُ الرَّازِقِينَ» کہہ کر رومال اٹھایا، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے، جس کے اوپر چھلکا نہیں اور جس میں کانٹے نہیں، گھی اس میں سے بہہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں اور ایک پر پانچ انار ہیں۔

شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ علیہ السلام یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں ہوئے؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس پر تمہیں کوئی عذاب نہ ہو۔‏‏‏‏ شمعون نے کہا اسرائیل کے معبود برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں پوچھ رہا، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے! یقین مانئے کہ میری نیت بد نہیں۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کر دیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے والا قادر اور قدر دان ہے۔‏‏‏‏ شمعون نے کہا اے نبی اللہ علیہ السلام ہم چاہتے ہیں کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا «سُبْحَانَ اللَّهِ» گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں؟ اچھا لو دیکھو، یہ کہہ کر آپ علیہ السلام نے اس مچھلی سے فرمایا اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی، زندہ ہو جا، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہو گئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی، آنکھیں چمکنے لگیں، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آ گئے، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لیے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے، اے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی، ویسی ہی ہو جا۔‏‏‏‏ چنانچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہو گئی، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ علیہ السلام اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ علیہ السلام کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھالیں گے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا معاذاللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑ جائیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم دیا کہ تم کھانا شروع کر دو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تمہارے نبی علیہ السلام کی دعا سے اتری ہے، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ تمہیں مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہوگی تم «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ کر کھانا شروع کرو اور «الْحَمْدُ لِلَّـهِ» پر ختم کرو۔‏‏‏‏

پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہوگئے وہ تمام بیمار تندرست ہوگئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے۔

آپ فرماتے ہیں اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو بنی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا امیر، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے، یہ دیکھ کر باری مقرر ہو گئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے۔

اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے۔ خود بھی شک میں پڑگئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ علیہ السلام سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں۔

جناب مسیح علیہ السلام سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آگیا، تم نے خود طلب کیا، تمہارے نبی علیہ السلام کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی۔ آہ! اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں، مجھے تو ڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہو جاؤ گے۔‏‏‏‏

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ ” جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہو “۔

دن غروب ہوا اور یہ بے ادب، گستاخ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن و امان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آگیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پاخانوں کی پلیدی کھا رہے تھے، یہ اثر بہت غریب ہے، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کر دیا ہے تاکہ سمجھ آ جائے۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَىٰ اَعْلَمُ» ۔

بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرما دیا ہے۔

چنانچہ مجاہد رحمة الله سے منقول ہے کہ جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہوگئے اور مطالبہ سے دستبردار ہوگئے۔‏‏‏‏ حسن رحمة الله کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حسن اور مجاہد رحمہ اللہ علیہم کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر رحمة الله کا مختار مذہب بھی یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ فرمان ربی آیت «اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ» [5-المائدہ:115] ‏‏‏‏ میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے۔

تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ بنی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المؤمنین ولید بن عبدالملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمین کا انتقال ہوگیا۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا تھا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

مسند احمد میں ہے کہ قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لیے سونے کا بنا دے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل سچا وعدہ ہے ، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ ” اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیتا ہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں “۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اللہ معاف فرما، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے ، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:3388:صحیح] ‏‏‏‏