اللہ نے نہ کوئی کان پھٹی اونٹنی مقرر فرمائی ہے اور نہ کوئی سانڈ چُھٹی ہوئی اور نہ کوئی اوپر تلے بچے دینے والی مادہ اور نہ کوئی بچوں کا باپ اونٹ اور لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔[103]
صحیح بخاری شریف میں سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ «بَحِيرَةٍ» اس جانور کو کہتے ہیں جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دو ہتا نہ تھا «سَائِبَةٍ» ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں وہ اپنے معبود باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے سواری اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجاد کی تھی۔ «وَصِيلَةٍ» وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہوا ہو اسے بھی وہ اپنے بتوں کے نام وقف کر دیتے تھے۔ «حَامٍ» اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اسے بھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لیتے تھے ۔ [صحیح بخاری:4623]
ایک حدیث میں ہے کہ میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو گویا کھائے جا رہا تھا اس میں میں نے عمرو کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹا پھرتا ہے اسی نے سائبہ کا رواج سب سے پہلے نکالا تھا ۔ [صحیح بخاری:4624]
ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمورو کا یہ ذکر حصرت اکتم بن جون رضی اللہ عنہ سے کر کے فرمایا وہ صورت و شکل میں بالکل تیرے جیسا ہے اس پر اکتم نے فرمایا یا رسول اللہ کہیں یہ مشابہت مجھے نقصان نہ پہنچائے؟ آپ نے فرمایا نہیں بے فکر رہو وہ کافر تھا تم مسلمان ہو۔ اسی نے ابراہیم علیہ السلام کے دین کو سب سے پہلے بدلا اسی نے بحیرہ، سائبہ اور حام کی رسم نکالی، اسی نے بت پرستی دین ابراہیمی میں ایجاد کی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12820:صحیح]
ایک روایت میں ہے یہ بنو کعب میں سے ہے، جہنم میں اس کے جلنے کی بدبو سے دوسرے جہنمیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ بحیرہ کی رسم کو ایجاد کرنے والا بنو مدلج کا ایک شخص تھا اس کی دو اونٹنیاں تھیں جن کے کان کاٹ دیئے اور دودھ حرام کر دیا پھر کچھ عرصہ کے بعد پینا شروع کر دیا، میں نے اسے بھی دوزخ میں دیکھا دونوں اونٹنیاں اسے کاٹ رہی تھیں اور روند رہی تھیں ۔
یاد رہے کہ یہ عمر ولحی بن قمعہ کا لڑکا ہے جو خزاعہ کے سرداروں میں سے ایک تھا قبیلہ جرہم کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت انہی کے پاس تھی یہی شخص عرب میں بت لایا اور سفلے لوگوں میں ان کی عبادت جاری کی اور بہت سی بدعتیں ایجاد کیں جن میں سے چوپایوں کو الگ الگ طریقے سے بتوں کے نام کرنے کی رسم بھی تھی۔
جس کی طرف اشارہ آیت «وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاىِٕنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَاىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰي شُرَكَاىِٕهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ» [6-الأنعام:136] میں ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اونٹنی کے جب پانچ بچے ہوتے تو پانچواں اگر نر ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتے اور اس کا گوشت صرف مرد کھاتے عورتوں پر حرام جانتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے کان کاٹ کر اس کا نام بحیرہ رکھتے۔ سائبہ کی تفسیر میں مجاہد رحمة الله سے اسی کے قریب قریب بکریوں میں مروی ہے۔ محمد بن اسحاق رحمة الله کا قول ہے کہ جس اونٹنی کے پے در پے دس اونٹنیاں پیدا ہوتیں اسے چھوڑ دیتے نہ سواری لیتے نہ بال کاٹتے نہ دودھ دوہتے اور اسی کا نام سائبہ ہے۔ صرف مہمان کے لیے تو دودھ نکال لیتے ورنہ اس کا دودھ یونہی رکا رہتا، ابو روق کہتے ہیں یہ نذر کا جانور ہوتا تھا جب کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے بت اور بزرگ کے نام کوئی جانور آزاد کر دیتا پھر اس کی نسل بھی آزاد سمجھی جاتی، سدی کہتے ہیں اگر کوئی شخص اس جانور کی بیحرمتی کرتا تو اسے یہ لوگ سزا دیتے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وصیلہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک بکری کا ساتواں بچہ ہے اب اگر وہ نر ہے اور ہے مردہ تو اسے مرد عورت کھاتے اور اگر وہ مادہ ہے تو اسے زندہ باقی رہنے دیتے اور اگر نر مادہ دونوں ایک ساتھ ہوئے ہیں تو اس نر کو بھی زندہ رکھتے اور کہتے کہ اس کے ساتھ اس کی بہن ہے اس نے اسے ہم پر حرام کر دیا۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جس اونٹنی کے مادہ پیدا ہو پھر دوسرا بچہ بھی مادہ ہو تو اسے وصیلہ کہتے تھے، محمد بن اسحاق رحمة الله فرماتے ہیں جو بکری پانچ دفعہ دو دو مادہ بکریاں بچے دے اس کا نام وصیلہ تھا پھر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے بعد اس کا جو بچہ ہوتا اسے ذبح کر کے صرف مرد کھا لیتے اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو مرد عورت سب کا حصہ سمجھا جاتا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حام اس نر اونٹ کو کہتے ہیں جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہو جائیں یہ بھی مروی ہے کہ جس کے بچے سے کوئی بچہ ہو جائے اسے وہ آزاد کر دیتے نہ اس پر سواری لیتے نہ اس پر بوجھ لادتے، نہ اس کے بال کام میں لیتے نہ کسی کھیتی یا چارے یا حوض سے اسے روکتے، اور اقوال بھی ہیں۔
حضرت مالک بن نفلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: تیرے پاس کچھ مال بھی ہے؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا: کس قسم کا؟ کہا ہر قسم کا اونٹ بکریاں گھوڑے غلام وغیرہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو اللہ نے تجھے بہت کچھ دے رکھا ہے سن اونٹ کے جب بچہ ہوتا ہے تو صحیح سالم کان والا ہی ہوتا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو استرا لے کر ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور ان کا نام بحیرہ رکھ دیتا ہے؟ اور بعض کے کان چیر کر انہیں حرام سمجھنے لگتا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا: خبردار ایسا نہ کرنا اللہ نے تجھے جتنے جانور دے رکھے ہیں سب حلال ہیں ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ [مسند احمد:473/3:صحیح]
بحیرہ وہ ہے جس کے کان کاٹ دیئے جاتے تھے پھر گھر والوں میں سے کوئی بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا ہاں جب وہ مر جاتا تو سب بیٹھ کر اس کا گوشت کھا جاتے، سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے اپنے معبودوں کے پاس لے جا کر ان کے نام کا کر دیتے تھے۔
وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جس کے ہاں ساتویں دفعہ بچہ ہو اس کے کان اور سینگ کاٹ کر آزاد کر دیتے، اس روایت کے مطابق تو حدیث ہی میں ان جانورون کی تفصیل ملی جلی ہے ایک روایت میں یہ بقول عوف بن مالک مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔
پھر فرمان قرآن ہے کہ ” یہ نام اور چیزیں اللہ کی مقرر کردہ نہیں نہ اس کی شریعت میں داخل ہیں نہ ذریعہ ثواب ہیں “۔ یہ لوگ اللہ کی پاک صاف شریعت کی طرف دعوت دیئے جاتے ہیں تو اپنے باپ دادوں کے طریقوں کو اس کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کے بڑے محض ناواقف اور بے راہ تھے ان کی تابعداری تو وہ کرے گا جو ان سے بھی زیادہ بہکا ہوا اور بے عقل ہو۔