قرآن مجيد

سورة المائده
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[34]
مگر جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پائو تو جان لو کہ اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔[34]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 33، 34،

فساد اور قتل و غارت گری ٭٭

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اہل کتاب کے ایک گروہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اسے توڑ دیا اور فساد مچا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو انہیں قتل کر دیں، چاہیں تو الٹے سیدھے ہاتھ پاؤں کٹوا دیں ۔

سعد رحمة الله فرماتے ہیں یہ حروریہ خوارج کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‏‏‏‏ صحیح یہ ہے کہ جو بھی اس فعل کا مرتکب ہو اس کیلئے یہ حکم ہے۔

چنانچہ بخاری مسلم میں ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اگر تم چاہو تو ہمارے چرواہوں کے ساتھ چلے جاؤ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تمہیں ملے گا ۔ چنانچہ یہ گئے اور جب ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے ان چرواہوں کو مار ڈالا اور اونٹ لے کر چلتے بنے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے دوڑایا کہ انہیں پکڑ لائیں، چنانچہ یہ گرفتار کئے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے۔ پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ مسلم میں ہے یا تو یہ لوگ عکل کے تھے یا عرینہ کے۔ یہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہ دیا گیا نہ ان کے زخم دھوئے گئے ۔ [صحیح بخاری:233] ‏‏‏‏

انہوں نے چوری بھی کی تھی، قتل بھی کیا تھا، ایمان کے بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے بھی تھے۔ انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں، مدینے کی آب و ہوا اس وقت درست نہ تھی، سرسام کی بیماری تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے بیس انصاری گھوڑ سوار بھیجے تھے اور ایک کھوجی تھا، جو نشان قدم دیکھ کر رہبری کرتا جاتا تھا۔ موت کے وقت ان کی پیاس کے مارے یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے تھے، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ [سنن ترمذي:1845، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ایک مرتبہ حجاج نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ سب سے بڑی اور سب سے سخت سزا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دی ہو، تم بیان کرو تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بحرین سے آئے تھے، بیماری کی وجہ سے ان کے رنگ زرد پڑ گئے تھے اور پیٹ بڑھ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: کہ جاؤ اونٹوں میں رہو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ حجاج نے تو اس روایت کو اپنے مظالم کی دلیل بنا لی تب تو مجھے سخت ندامت ہوئی کہ میں نے اس سے یہ حدیث کیوں بیان کی؟۔‏‏‏‏ [اسناده ضعیف وله شواهد] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ ان میں سے چار شخص تو عرینہ قبیلے کے تھے اور تین عکل کے تھے، یہ سب تندرست ہو گئے تو یہ مرتد بن گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11818] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ راستے بھی انہوں نے بند کر دیئے تھے اور زنا کار بھی تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11820] ‏‏‏‏

جب یہ آئے تو اب سب کے پاس بوجہ فقیری پہننے کے کپڑے تک نہ تھے، یہ قتل و غارت کر کے بھاگ کر اپنے شہر کو جا رہے تھے۔ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ اپنی قوم کے پاس پہنچنے والے تھے جو ہم نے انہیں جا لیا۔ وہ پانی مانگتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اب تو پانی کے بدلے جہنم کی آگ ملے گی ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اللہ کو ناپسند آیا، یہ حدیث ضعیف اور غریب ہے لیکن اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو لشکر ان مرتدوں کے گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا، ان کے سردار سیدنا جریر رضی اللہ عنہ تھے۔ ہاں اس روایت میں یہ فقرہ بالکل منکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا مکروہ رکھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11815] ‏‏‏‏

اس لیے کہ صحیح مسلم میں یہ موجود ہے کہ انہوں نے چرواہوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا، پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا جو انہوں نے ان کے ساتھ کیا تھا وہی ان کے ساتھ کیا گیا ۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ بنو فزارہ کے تھے، اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سزا کسی کو نہیں دی۔ [عبد الرزاق:18541:ضعیف] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام تھا، جس کا نام یسار تھا چونکہ یہ بڑے اچھے نمازی تھے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور اپنے اونٹوں میں انہیں بھیج دیا تھا کہ یہ ان کی نگرانی رکھیں، انہی کو ان مرتدوں نے قتل کیا اور ان کی آنکھوں میں کانٹے گاڑ کر اونٹ لے کر بھاگ گئے، جو لشکر انہیں گرفتار کر کے لایا تھا، ان میں ایک شاہ زور کرز بن جابر فہری تھے ۔ [طبرانی کبیر:6223:ضعیف] ‏‏‏‏

حافظ ابوبکر بن مردویہ رحمة الله نے اس روایت کے تمام طریقوں کو جمع کر دیا اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ ابوحمزہ عبد الکریم رحمة الله سے اونٹوں کے پیشاب کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ ان محاربین کا قصہ بیان فرماتے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ منافقانہ طور پر ایمان لائے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینے کی آب و ہوا کی ناموافقت کی شکایت کی تھی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دغا بازی اور قتل و غارت اور ارتداد کا علم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرائی کہ اللہ کے لشکریو اٹھ کھڑے ہو ۔

یہ آواز سنتے ہی مجاہدین کھڑے ہو گئے، بغیر اس کے کہ کوئی کسی کا انتظار کرے ان مرتد ڈاکوؤں اور باغیوں کے پیچھے دوڑے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو روانہ کر کے ان کے پیچھے چلے، وہ لوگ اپنی جائے امن میں پہنچنے ہی کو تھے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں گھیر لیا اور ان میں سے جتنے گرفتار ہو گئے، انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا اور یہ آیت اتری، ان کی جلا وطنی یہی تھی کہ انہیں حکومت اسلام کی حدود سے خارج کر دیا گیا۔ پھر ان کو عبرتناک سزائیں دی گئیں۔

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے بھی اعضاء بدن سے جدا نہیں کرائے بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا ہے، جانوروں کو بھی اس طرح کرنا منع ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ قتل کے بعد انہیں جلا دیا گیا، [تفسیر ابن جریر الطبری:11814:ضعیف] ‏‏‏‏

بعض کہتے ہیں یہ بنو سلیم کے لوگ تھے۔ بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سزا انہیں دی وہ اللہ کو پسند نہ آئیں اور اس آیت سے اسے منسوخ کردیا۔ ان کے نزدیک گویا اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سزا سے روکا گیا ہے۔

جیسے آیت «عَفَا اللَّـهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ» ‏‏‏‏ [9-التوبة:43] ‏‏‏‏ میں اور بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے یعنی ہاتھ پاؤں کان ناک کاٹنے سے جو ممانعت فرمائی ہے، اس حدیث سے یہ سزا منسوخ ہو گئی۔

لیکن یہ ذرا غور طلب ہے پھر یہ بھی سوال طلب امر ہے کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے؟ بعض کہتے ہیں حدود اسلام مقرر ہوں اس سے پہلے کا یہ واقعہ ہے لیکن یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا، بلکہ حدود کے تقرر کے بعد کا واقعہ معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس حدیث کے ایک راوی سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کا اسلام سورۃ المائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ بعض کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارادے سے باز رہے، لیکن یہ بھی درست نہیں۔ اس لیے کہ بخاری و مسلم میں یہ لفظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیں پھروائیں ۔

محمد بن عجلان رحمة الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سخت سزا انہیں دی، اس کے انکار میں یہ آیتیں اتری ہیں اور ان میں صحیح سزا بیان کی گئی ہے جو قتل کرنے اور ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے کاٹنے اور وطن سے نکال دینے کے حکم پر شامل ہے چنانچہ دیکھ لیجئے کہ اس کے بعد پھر کسی کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنی ثابت نہیں۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:11822:ضعیف] ‏‏‏‏

لیکن اوزاعی کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹا گیا ہو۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے جو کیا تھا اس کا وہی بدلہ مل گیا۔ اب آیت نازل ہوئی جس نے ایک خاص حکم ایسے لوگوں کا بیان فرمایا اور اس میں آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم نہیں دیا۔‏‏‏‏

اس آیت سے جمہور علماء نے دلیل پکڑی ہے کہ راستوں کی بندش کر کے لڑنا اور شہروں میں لڑنا دونوں برابر ہے کیونکہ لفظ «وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا» کے ہیں۔ مالک، اوزاعی، لیث، شافعی،، احمد رحمہم اللہ اجمعین کا یہی مذہب ہے کہ باغی لوگ خواہ شہر میں ایسا فتنہ مچائیں یا بیرون شہر، ان کی سزا یہی ہے۔‏‏‏‏ بلکہ امام مالک رحمة الله تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو اس کے گھر میں اس طرح دھوکہ دہی سے مار ڈالے تو اسے پکڑ لیا جائے اور اسے قتل کر دیا جائے اور خود امام وقت ان کاموں کو از خود کرے گا، نہ کہ مقتول کے اولیاء کے ہاتھ میں یہ کام ہوں بلکہ اگر وہ درگزر کرنا چاہیں تو بھی ان کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ جرم، بے واسطہ حکومت اسلامیہ کا ہے۔‏‏‏‏

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ نہیں، وہ کہتے ہیں کہ مجاربہ اسی وقت مانا جائے گا جبکہ شہر کے باہر ایسے فساد کوئی کرے، کیونکہ شہر میں تو امداد کا پہنچنا ممکن ہے، راستوں میں یہ بات ناممکن سی ہے۔‏‏‏‏ جو سزا ان محاربین کی بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص مسلمانوں پر تلوار اٹھائے، راستوں کو پُر خطر بنا دے، امام المسلمین کو ان تینوں سزاؤں میں سے جو سزا دینا چاہے اس کا اختیار ہے۔‏‏‏‏

یہی قول اور بھی بہت سوں کا ہے اور اس طرح کا اختیار ایسی ہی اور آیتوں کے احکام میں بھی موجود ہے جیسے محرم اگر شکار کھیلے تو اس کا بدلہ شکار کے برابر کی قربانی یا مساکین کا کھانا ہے یا اس کے برابر روزے رکھنا ہے، بیماری یا سر کی تکلیف کی وجہ سے حالت احرام میں سر منڈوانے اور خلاف احرام کام کرنے والے کے فدیئے میں بھی روزے یا صدقہ یا قربانی کا حکم ہے۔

قسم کے کفارے میں درمیانی درجہ کا کھانا دیں مسکینوں کا یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ تو جس طرح یہاں ان صورتوں میں سے کسی ایک کے پسند کر لینے کا اختیار ہے، اسی طرح ایسے محارب، مرتد لوگوں کی سزا بھی یا تو قتل ہے یا ہاتھ پاؤں الٹی طرح سے کاٹنا ہے یا جلا وطن کرنا۔ اور جمہور کا قول ہے کہ یہ آیت کئی احوال میں ہے، جب ڈاکو قتل و غارت دونوں کے مرتکب ہوتے ہوں تو قابل دار اور گردن وزنی ہیں اور جب صرف قتل سرزد ہوا ہو تو قتل کا بدلہ صرف قتل ہے اور اگر فقط مال لیا ہو تو ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کاٹ دیئے جائیں گے اور اگر راستے پُر خطر کر دیئے ہوں، لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہو اور کسی گناہ کے مرتکب نہ ہوئے ہوں اور گرفتار کر لیے جائیں تو صرف جلا وطنی ہے۔

اکثر سلف اور ائمہ کا یہی مذہب ہے پھر بزرگوں نے اس میں بھی اختلاف کیا ہے کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جائے کہ بھوکا پیاسا مر جائے؟ یا نیزے وغیرہ سے قتل کر دیا جائے؟ یا پہلے قتل کر دیا جائے پھر سولی پر لٹکایا جائے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو؟ اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے دے کر پھر اتار لیا جائے؟ یا یونہی چھوڑ دیا جائے لیکن تفسیر کا یہ موضوع نہیں کہ ہم ایسے جزئی اختلافات میں پڑیں اور ہر ایک کی دلیلیں وغیرہ وارد کریں۔

ہاں ایک حدیث میں کچھ تفصیل سزا ہے، اگر اس کی سند صحیح ہو تو وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان محاربین کے بارے میں جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جنہوں نے مال چرایا اور راستوں کو خطرناک بنا دیا ان کے ہاتھ تو چوری کے بدلے کاٹ دیجئیے اور جس نے قتل اور دہشت گردی پھیلائی اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اسے سولی چڑھا دو ۔

فرمان ہے کہ ” زمین سے الگ کر دیئے جائیں “ یعنی انہیں تلاش کر کے ان پر حد قائم کی جائے یا وہ دار الاسلام سے بھاگ کر کہیں چلے جائیں یا یہ کہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر انہیں بھیج دیا جاتا رہے یا یہ کہ اسلامی سلطنت سے بالکل ہی خارج کر دیا جائے۔ شعبی تو نکال ہی دیتے تھے اور عطا خراسانی کہتے ہیں ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں پہنچا دیا جائے یونہی کئی سال تک مارا مارا پھرایا جائے لیکن دار الاسلام سے باہر نہ کیا جائے۔‏‏‏‏ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں اسے جیل خانے میں ڈال دیا جائے۔‏‏‏‏ ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول یہ ہے کہ اسے اس کے شہر سے نکال کر کسی دوسرے شہر کے جیل خانے میں ڈال دیا جائے۔‏‏‏‏ ایسے لوگ دنیا میں ذلیل و رذیل اور آخرت میں بڑے بھاری عذابوں میں گرفتار ہوں گے۔‏‏‏‏

آیت کا یہ ٹکڑا تو ان لوگوں کی تائید کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے اور مسلمانوں کے بارے وہ صحیح حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ویسے ہی عہد لیے جیسے عورتوں سے لیے تھے کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولادوں کو قتل نہ کریں، ایک دوسرے کی نافرمانی نہ کریں جو اس وعدے کو نبھائے، اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کے ساتھ آلودہ ہو جائے پھر اگر اسے سزا ہو گئی تو وہ سزا کفارہ بن جائے گی اور اگر اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کر لی تو اس امر کا اللہ ہی مختار ہے اگر چاہے عذاب کرے، اگر چاہے چھوڑ دے ۔ [صحیح مسلم:1709] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے جس کسی نے کوئی گناہ کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھانپ لیا اور اس سے چشم پوشی کر لی تو اللہ کی ذات اور اس کا رحم و کرم اس سے بہت بلند و بالا ہے، معاف کئے ہوئے جرائم کو دوبارہ کرنے پہ اسے دنیوی سزا ملے گی، اگر بے توبہ مرگئے تو آخرت کی وہ سزائیں باقی ہیں جن کا اس وقت صحیح تصور بھی محال ہے ہاں توبہ نصیب ہو جائے تو اور بات ہے ۔ [سنن ترمذي:2626،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر توبہ کرنے والوں کی نسبت جو فرمایا ہے اس کا اظہار اس صورت میں تو صاف ہے کہ اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں نازل شدہ مانا جائے۔ لیکن جو مسلمان مغرور ہوں اور وہ قبضے میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو ان سے قتل اور سولی اور پاؤں کاٹنا تو ہٹ جاتا ہے لیکن ہاتھ کا کٹنا بھی ہٹ جاتا ہے یا نہیں، اس میں علماء کے دو قول ہیں، آیت کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ہٹ جائے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اسی پر ہے۔

چنانچہ جاریہ بن بدر تیمی بصریٰ نے زمین میں فساد کیا، مسلمانوں سے لڑا، اس بارے میں چند قریشیوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سفارش کی، جن میں حسن بن علی، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم بھی تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے اسے امن دینے سے انکار کر دیا۔ وہ سعید بن قیس ہمدانی کے پاس آیا، آپ نے اپنے گھر میں اسے ٹھہرایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا بتائیے تو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑے اور زمین میں فساد کی سعی کرے، پھر ان آیتوں کی «‏‏‏‏قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ» تک تلاوت کی تو، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو ایسے شخص کو امن لکھ دوں گا، سعید نے فرمایا یہ جاریہ بن بدر ہے، چنانچہ جاریہ نے اس کے بعد ان کی مدح میں اشعار بھی کہے ہیں۔

قبیلہ مراد کا ایک شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس کوفہ کی مسجد میں جہاں کے یہ گورنر تھے، ایک فرض نماز کے بعد آیا اور کہنے لگا اے امیر کوفہ فلاں بن فلاں مرادی قبیلے کا ہوں، میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی لڑی، زمین میں فساد کی کوشش کی لیکن آپ لوگ مجھ پر قدرت پائیں، اس سے پہلے میں تائب ہوگیا اب میں آپ سے پناہ حاصل کرنے والے کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا اے لوگو! تم میں سے کوئی اب اس توبہ کے بعد اس سے کسی طرح کی لڑائی نہ کرے، اگر یہ سچا ہے تو الحمدللہ اور یہ جھوٹا ہے تو اس کے گناہ ہی اسے ہلاک کر دیں گے۔‏‏‏‏ یہ شخص ایک مدت تک تو ٹھیک ٹھیک رہا لیکن پھر بغاوت کر گیا، اللہ نے بھی اس کے گناہوں کے بدلے اسے غارت کر دیا اور یہ مار ڈالا گیا۔

علی نامی ایک اسدی شخص نے بھی گزرگاہوں میں دہشت پھیلا دی، لوگوں کو قتل کیا، مال لوٹا، بادشاہ لشکر اور رعایا نے ہر چند اسے گرفتار کرنا چاہا، لیکن یہ ہاتھ نہ لگا۔ ایک مرتبہ یہ جنگل میں تھا، ایک شخص کو قرآن پڑھتے سنا اور وہ اس وقت یہ آیت تلاوت کر رہا تھا «قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ» [39-الزمر:53] ‏‏‏‏، یہ اسے سن کر رک گیا اور اس سے کہا اے اللہ کے بندے یہ آیت مجھے دوبارہ سنا، اس نے پھر پڑھی اللہ کی اس آواز کو سن کر کہ وہ فرماتا ہے ” اے میرے گنہگار بندو تم میری رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، میں سب گناہوں کو بخشنے پر قادر ہوں میں غفور و رحیم ہوں “، اس شخص نے جھٹ سے اپنی تلوار میان میں کرلی، اسی وقت سچے دل سے توبہ کی اور صبح کی نماز سے پہلے مدینے پہنچ گیا، غسل کیا اور مسجد نبوی میں نماز صبح جماعت کے ساتھ ادا کی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جو لوگ بیٹھے تھے، ان ہی میں ایک طرف یہ بھی بیٹھ گیا۔

جب دن کا اجالا ہوا تو لوگوں نے اسے دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو سلطنت کا باغی، بہت بڑا مجرم اور مفرور شخص علی اسدی ہے، سب نے چاہا کہ اسے گرفتار کر لیں۔ اس نے کہا سنو بھائیو! تم مجھے گرفتار نہیں کرسکتے، اس لیے کہ مجھ پر تمہارے قابو پانے سے پہلے ہی میں تو توبہ کر چکا ہوں بلکہ توبہ کے بعد خود تمہارے پاس آ گیا ہوں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا! یہ سچ کہتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مروان بن حکم کے پاس لے چلے، یہ اس وقت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینے کے گورنر تھے، وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ علی اسدی ہیں، یہ توبہ کر چکے ہیں، اس لیے اب تم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔‏‏‏‏

چنانچہ کسی نے اس کے ساتھ کچھ نہ کیا، جب مجاہدین کی ایک جماعت رومیوں سے لڑنے کیلئے چلی تو ان مجاہدوں کے ساتھ یہ بھی ہو لیے، سمندر میں ان کی کشتی جا رہی تھی کہ سامنے سے چند کشتیاں رومیوں کی آگئیں، یہ اپنی کشتی میں سے رومیوں کی گردنیں مارنے کیلئے ان کی کشتی میں کود گئے، ان کی آبدار خارا شگاف تلوار کی چمک کی تاب رومی نہ لاسکے اور نامردی سے ایک طرف کو بھاگے، یہ بھی ان کے پیچھے اسی طرف چلے چونکہ سارا بوجھ ایک طرف ہو گیا، اس لیے کشتی الٹ گئی جس سے وہ سارے رومی کفار ہلاک ہوگئے اور علی اسدی بھی ڈوب کر شہید ہو گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:284/10] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏اللہ ان پر اپنی رحمتیں ناز فرمائے)۔