قرآن مجيد

سورة المائده
قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ[23]
دو آدمیوں نے کہا، جو ان لوگوں میں سے تھے جو ڈرتے تھے، ان دونوں پر اللہ نے انعام کیا تھا، تم ان پر دروازے میں داخل ہو جائو، پھر جب تم اس میں داخل ہوگئے تو یقینا تم غالب ہو اور اللہ ہی پر پس بھروسا کرو، اگر تم مومن ہو۔[23]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 20، 21، 22، 23، 24، 25، 26،

تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت ٭٭

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ فرمایا لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایک کے بعد ایک نبی علیہ السلام تم میں تمہیں میں سے بھیجا۔‏‏‏‏

سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد سے انہی کی نسل میں نبوت رہی۔ یہ سب انبیاء علیہم السلام تمہیں دعوت توحید و اتباع دیتے رہے۔ یہ سلسلہ عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام پر ختم ہوا، پھر خاتم الانبیاء و الرسل محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کاملہ عطا ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واسطہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، جو اپنے سے پہلے کے تمام رسولوں اور نبیوں سے افضل تھے۔

اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمہیں اس نے بادشاہ بنا دیا یعنی خادم دیئے، بیویاں دیں، گھربار دیا اور اس وقت جتنے لوگ تھے، ان سب سے زیادہ نعمتیں تمہیں عطا فرمائیں۔ یہ لوگ اتنا پانے کے بعد بادشاہ کہلانے لگتے ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تیری بیوی ہے؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے؟ کہا ہاں، کہا پھر تو تو غنی ہے، اس نے کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔

حسن بصری رحمة الله فرماتے ہیں سواری اور خادم ملک ہے۔‏‏‏‏ بنو اسرائیل ایسے لوگوں کو ملوک کہا کرتے تھے۔ بقول قتادہ رحمة الله خادموں کا اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے ہی دیا ہے۔

ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان لوگوں میں جس کے پاس خادم، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا ۔ [ضعیف:اسکی سند میں ابن لبیعہ ضعیف ہے] ‏‏‏‏

ایک اور مرفوع حدیث میں ہے جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11629:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو، اس کا نفس امن و امان میں ہو، دن بھر کفایت کرے، اس کیلئے اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے گویا کل دنیا سمٹ کر آگئی ۔ [سنن ترمذي:2346،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے ان سے یہ اشرف و افضل مانے گئے تھے۔

اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ» [45-الجاثية:16] ‏‏‏‏ ” ہم نے بنو اسرائیل کو کتاب، حکم، نبوت، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی “۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جب انہوں نے مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے کو کہا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے فضل بیان کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ اس نے تمہیں تمام جہان پر فضیلت دے رکھی ہے۔‏‏‏‏ مطلب سب جگہ یہی ہے کہ اس وقت کے تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ امت ان سے افضل ہے، کیا شرعی حیثیت سے، کیا احامی حیثیت سے، کیا نبوت کی حیثیت سے، کیا بادشاہت، عزت، مملکت، دولت، حشمت مال، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے۔

خود قرآن فرماتا ہے آیت «كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ» [3-آل عمران:110] ‏‏‏‏، اور فرمایا آیت «وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا» [2-البقرۃ:143] ‏‏‏‏۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنو اسرائیل کے ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کر کے خطاب کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض امور میں انہیں فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے من و سلویٰ کا اترنا، بادلوں سے سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں۔‏‏‏‏ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مراد اس سے ان کے اپنے زمانے والوں پر انہیں فضیلت دیا جانا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

پھر بیان ہوتا ہے کہ ” بیت المقدس دراصل ان کے دادا یعقوب کے زمانہ میں انہی کے قبضے میں تھا اور جب وہ مع اپنے اہل و عیال کے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مصر چلے گئے تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی “۔

اب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم ان سے جہاد کرو اللہ تمہیں ان پر غالب کرے گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں مل جائے گا۔‏‏‏‏ لیکن یہ نامردی دکھاتے ہیں اور بزدلی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کی سزا میں انہیں چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے۔ مقدسہ سے مراد پاک ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ وادی طور اور اس کے پاس کی زمین کا ذکر ہے۔‏‏‏‏ ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں، اس لیے کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا، نہ وہ ان کے راستے میں تھا، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہروں سے آرہے تھے اور بیت المقدس جا رہے تھے، یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے مشرقی رخ پر تھا۔

اللہ نے اسے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ تمہارے باپ اسرائیل سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیری اولاد کے باایمان لوگوں کے ورثے میں آئے گا، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہو جاؤ۔ یعنی جہاد سے منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑ جاؤ گے۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ جس شہر میں جانے اور جن شہریوں سے جہاد کرنے کیلئے آپ علیہ السلام فرما رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بڑے قوی طاقتور اور جنگجو ہیں، ہم ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے، جب تک وہ وہاں موجود ہیں، ہم اس شہر میں نہیں جا سکتے، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم چلے جائیں گے، ورنہ آپ کے حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے باہر ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب اریحاء کے قریب پہنچ گئے تو آپ علیہ السلام نے بارہ جاسوس مقرر کئے، بنو اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک جاسوس لیا اور انہیں اریحاء میں بھیج کر صحیح خبریں لے آئیں۔‏‏‏‏

یہ لوگ جب گئے تو ان کی جسامت اور قوت سے خوف زدہ ہو گئے۔ ایک باغ میں یہ سب کے سب تھے، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے کیلئے آگیا، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بھی پھلوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جا کر بادشاہ کے سامنے باغ کے پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی، جس میں یہ سب کے سب تھے، بادشاہ نے انہیں کہا اب تو تمہیں ہماری قوت کا اندازہ ہو گیا ہے، تمہیں قتل نہیں کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے لوگوں سے ہماری قوت بیان کر دو۔ چنانچہ انہوں نے جا کر سب حال بیان کیا جس سے بنو اسرائیل رعب میں آگئے۔‏‏‏‏ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں۔

دوسری روایت میں ہے کہ ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے گیا اور لوگوں کے سامنے انہیں ڈال دیا، انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگ ہیں، ہم تمہاری خبریں لینے کیلئے بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے کہہ دو کہ یہ ہمارے میوے ہیں۔ انہوں نے واپس جا کر قوم سے سب حال کہدیا۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے انہیں جہاد کا اور اس شہر میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے ہلنے کے بھی نہیں۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ایک بانس لے کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا، پھر اسے گاڑ کر فرمایا ان عمالیق کے قد اس قدر لانبے تھے۔‏‏‏‏ مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے، انہی میں عوج بن عنق بن آدم تھا، جس کا قد لمبائی میں [3333] ‏‏‏‏ تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں، ان کے تو ذکر سے بھی حیاء مانع ہے۔

پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے ۔ [صحیح بخاری:3326] ‏‏‏‏

ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے، قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا یہ مذکور ہے کہ «رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا» [71-نوح:26] ‏‏‏‏ ” زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہیئے “، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی۔

قرآن فرماتا ہے «فَأَنْجَيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ» [26-الشعراء:119-120] ‏‏‏‏ ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کر دیا۔‏‏‏‏

خود قرآن میں ہے کہ «لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ» [11-هود:43] ‏‏‏‏ ” آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے، کوئی بھی بچنے کا نہیں “۔

تعجب سا تعجب ہے کہ نوح علیہ السلام کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

بنی اسرائیل جب اپنے نبی کریم علیہ السلام کو نہیں مانتے بلکہ ان کے سامنے سخت کلامی اور بے ادبی کرتے تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و اکرام تھا، وہ انہیں سمجھاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف تھا، وہ ڈرتے تھے، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے کہیں عذاب الٰہی نہ آ جائے۔

ایک قرأت میں «يَخَافُونَ» کے بدلے «یَـھَـابَـوْنَ» ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی۔ ایک کا نام یوشع بن نون تھا دوسرے کا نام کالب بن یوفا تھا۔‏‏‏‏ انہوں نے کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے، اس کے رسول علیہ السلام کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان دشمنوں پر غالب کر دے گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے گا اور تم اس شہر میں غلبے کے ساتھ پہنچ جاؤ گے، تم دروازے تک تو چلے چلو، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے۔

لیکن ان نامرادوں نے اپنا پہلا جواب اور مضبوط کر دیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے۔ موسیٰ اور ہارون علیہم السلام نے دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے۔ یہ حال دیکھ کر یوشع اور کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور انہیں بہت کچھ ملامت کی۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے پتھروں سے شہید کر دیا، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا اور بے طرح مخالفت رسول علیہ السلام پر تل گئے۔

ان کے اس حال کو سامنے رکھ کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حال کو دیکھئیے کہ جب نو سو یا ایک ہزار کافر اپنے قافلے کو بچانے کیلئے چلے، قافلہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا لیکن انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچائے بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے ارادے سے مدینہ کا رخ کیا۔

ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا کہ بتاؤ اب کیا کرنا چاہیئے؟ اللہ ان سب سے خوش رہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنے مال اپنی جانیں اور اپنے اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے غلبے کو دیکھا، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ قربان ہیں۔ سب سے پہلے صدیق رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی گفتگو کی، پھر مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کئی ایک نے اسی قسم کی تقریر کی۔

لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے تو کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس سے یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں، اس لیے کہ یہ جگہ انہی کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے زیادہ تھے۔

اس پر سیدنا سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ و انصار کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے کا ہے؟ سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سمندر کے کنارے کھڑا کرکے فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے اس میں کود جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیں گے کہ ہم میں سے ایک بھی نہ ہوگا جو کنارے پر کھڑا رہ جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں شوق سے لے چلئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیں گے کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے والے لوگ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان لیں گے کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے والے لوگ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نام لیجئے، کھڑے ہو جایئے ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر ان شاءاللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔‏‏‏‏

یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں رضی اللہ عنہم۔ [صحیح مسلم:1779] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ بدر کی لڑائی کے موقعہ پر آپ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہا پھر انصاریوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری سننا چاہتے ہیں، تو سنئے ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں، جو کہدیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مدد لے کر جہاد کیلئے چلئے، ہم جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ۔ [مسند احمد:105/3:صحیح] ‏‏‏‏ مقداد انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا۔ [مسند احمد:314/4:] ‏‏‏‏

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے اس قول سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:4609] ‏‏‏‏ انہوں نے کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کے وقت دیکھ لیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے۔‏‏‏‏ [مسند احمد:389/1:صحیح] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے میسر آتا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش کر سکتا)۔

ایک روایت میں سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کا یہ قول حدیبیہ کے دن مروی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11686:ضعیف] ‏‏‏‏ جبکہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف جاتے ہوئے راستے میں روکا اور قربانی کے جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اپنی قربانی کے جانور کو لے کر بیت اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں ، تو سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم اصحاب موسیٰ علیہ السلام کی طرح نہیں کہ انہوں نے اپنے نبی کریم علیہ السلام سے کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ کی مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو اور ہم سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔‏‏‏‏

یہ سن کر اصحاب رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح جاں نثاروں کے وعدے کرنے شروع کر دیئے۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہوسکتا ہے کہ بدر والے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے دن بھی یہی فرمایا ہو «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ رب العالمین مجھے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر اختیار ہے، تو میرے اور میری قوم کے ان فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما۔‏‏‏‏

جناب باری تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ ” اب چالیس سال تک یہاں سے جا نہیں سکتے۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے پھرتے رہیں گے “، کسی طرح اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔

یہاں انہوں نے عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا، من و سلویٰ کا اترنا۔ ایک ٹھوس پتھر سے، جو ان کے ساتھ تھا، پانی کا نکلنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے بارہ چشمے پانی کے جاری ہو گئے اور ہر قبیلے کی طرف ایک چشمہ بہہ نکلا، اس کے سوا اور بھی بہت سے معجزے بنو اسرائیل نے وہاں پر دیکھے، یہیں تورات اتری، یہیں احکام الٰہی نازل ہوئے وغیرہ وغیرہ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے پھرتے رہے لیکن کوئی راہ وہاں سے گزر جانے کی انہیں نہ ملی۔ ہاں ابر کا سایہ ان پر کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا۔

فتون کی مطول حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ سب مروی ہے۔ پھر ہارون علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور اس کے تین سال بعد کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام بھی انتقال فرما گئے، پھر آپ علیہ السلام کے خلیفہ یوشع بن نون علیہ السلام نبی بنائے گئے۔ اسی اثناء میں بہت سے بنی اسرائیل مر مرا چکے تھے، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف یوشع اور کالب ہی باقی رہے تھے۔

بعض مفسرین «سَنَةً» پر وقف تام کرتے ہیں اور «أَرْبَعِينَ سَنَةً» کو نصب کی حالت میں مانتے ہیں اور اس کا عامل «تِيهُونَ فِي الْأَرْضِ» کو بتلاتے ہیں۔ اس چالیس سالہ مدت کے گزرجانے کے بعد جو بھی باقی تھے، انہیں لے کر یوشع بن نون علیہ السلام نکلے اور دوسرے پہاڑ سے بھی باقی بنو اسرائیل ان کے ساتھ ہولیے اور آپ علیہ السلام نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔

جمعہ کے دن عصر کے بعد جب کہ فتح کا وقت آ پہنچا دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے، اتنے میں سورج ڈوبنے لگا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہفتے کی تعظیم کی وجہ سے لڑائی ہو نہیں سکتی تھی اس لیے اللہ کے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا اے سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں، اے اللہ! اسے ذرا سی دیر روک دے۔‏‏‏‏

چنانچہ اللہ کے حکم سے سورج رک گیا اور آپ علیہ السلام نے دلجمعی کے ساتھ بیت المقدس کو فتح کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ” بنی اسرائیل کو کہدو اس شہر کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور «حِطَّةٌ» کہیں “ یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما۔

لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل دیا۔ رانوں پر گھسٹتے ہوئے ہوئے اور زبان سی «حَبَّةٌ فِیْ شَعْرَۃٍ» کہتے ہوئے شہر میں گئے، مزید تفصیل سورۃ البقرۃ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔

دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس قدر مال غنیمت انہیں حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا۔ فرمان رب کے مطابق اسے آگ میں جلانے کیلئے آگ کے پاس لے گئے لیکن آگ نے اسے جلایا نہیں اس پر ان کے نبی یوشع علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے کسی نے اس میں سے کچھ چرا لیا ہے پس میرے پاس ہر قبیلے کا سردار آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرے۔‏‏‏‏

چنانچہ یونہی کیا گیا، ایک قبیلے کے سردار کا ہاتھ اللہ کے نبی کریم علیہ السلام کے ہاتھ سے چپک گیا، آپ علیہ السلام نے فرمایا تیرے پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے، اسے لے آ۔‏‏‏‏ اس نے ایک گائے کا سر سونے کا بنا ہوا پیش کیا، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے، جب وہ بھی دوسرے مال کے ساتھ ڈال دیا گیا، اب آگ نے اس سب مال کو جلا دیا۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے۔

«أَرْبَعِينَ سَنَةً» میں «فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ» عامل ہے، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ لوگ نکلے اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے علماء یہود کا اجماع ہے کہ عوج بن عنق کو کلیم اللہ علیہ السلام نے ہی قتل کیا ہے۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے پہلے کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے چھوٹنے کے بعد کا ہے، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بلعام بن باعورا نے قوم عمالیق کے جباروں کی اعانت کی اور اس نے موسیٰ علیہ السلام پر بد دعا کی۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے چھوٹنے کے بعد کا ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے تو جباروں کو موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سے کوئی ڈر نہ تھا۔

ابن جریر کی یہی دلیل ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا دس ہاتھ کا تھا اور آپ علیہ السلام کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے اچھل کر آپ علیہ السلام نے عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے ٹخنے پر لگا اور وہ مر گیا، اس کے جثے سے نیل کا پل بنایا گیا تھا، جس پر سے سال بھر تک اہل نیل آتے جاتے رہے۔

نوف بکالی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا تخت تین گز کا تھا۔‏‏‏‏ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر، وہ اسی جیل خانے کے مستحق ہیں “۔

اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے یہ دشمنان رب سختی کے وقت اللہ کے دین پر قائم نہیں رہتے تھے، رسولوں کی پیروی سے انکار کر جاتے تھے، جہاد سے جی چراتے تھے، اللہ کے اس کلیم و بزرگ رسول علیہ السلام کی موجودگی کا، ان کے وعدے کا، ان کے حکم کا کوئی پاس انہوں نے نہیں کیا، دن رات معجزے دیکھتے تھے، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا، اللہ کے بزرگ کلیم پیغمبر علیہ السلام ساتھ ہیں، وہ نصرت و فتح کے وعدے کر رہے ہیں، مگر یہ ہیں کہ اپنی بزدلی میں مرے جا رہے ہیں اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے ساتھ انکار کرتے ہیں۔

نبی اللہ کی بے ادبی کرتے ہیں اور صاف جواب دیتے ہیں۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں کہ فرعون جیسے با سامان بادشاہ کو اس کے ساز و سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے ڈبو دیا۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے بھروسے پر اس کے حکم کی ماتحتی میں نہیں بڑھتے حالانکہ یہ فرعون کے دسویں حصہ میں بھی نہ تھے۔

پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے اور آئے دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے۔ گویہ لوگ اپنے تئیں اللہ کے محبوب جانتے تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ رب کی نظروں سے یہ گر گئے تھے، دنیا میں ان پر طرح طرح کے عذاب آئے، سور بندر بھی بنائے گئے، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے دائمی شکار بنائے گئے۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے۔