قرآن مجيد

سورة المائده
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[19]
اے اہل کتاب! بے شک تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوشخبری دینے والا آیا اور نہ ڈرانے والا، تو یقینا تمھارے پاس ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آچکا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔[19]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 19،

محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطلقاً خاتم الانبیاء ہیں! ٭٭

اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ” میں نے تم سب کی طرف اپنا رسول بھیج دیا ہے جو خاتم الانبیاء ہے، جس کے بعد کوئی نبی رسول آنے والا نہیں، یہ سب کے بعد ہیں، دیکھ لو عیسیٰ کے بعد سے لے کر اب تک کوئی رسول نہیں آیا، «عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ» کہ اس لمبی مدت کے بعد یہ رسول آئے “۔

بعض کہتے ہیں یہ مدت چھ سو سال کی تھی۔ [صحیح بخاری:3947] ‏‏‏‏

بعض کہتے ہیں ساڑھے پانچ سو برس کی، بعض کہتے ہیں پانچ سو چالیس برس کی۔ [عبد الرزاق فی المصنف:186/1:صحیح] ‏‏‏‏

کوئی کہتا ہے چار سو کچھ اوپر تیس برس کی۔ ابن عساکر میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے کے درمیان نو سو تینتیس سال کا فاصلہ تھا۔ لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے یعنی چھ سو سال کا، بعض کہتے ہیں چھ سو بیس سال کا فاصلہ تھا۔

ان دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ پہلا قول شمسی حساب سے ہو اور دوسرا قمری حساب سے ہو اور اس گنتی میں ہر تین سو سال میں تقریباً آٹھ کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے اہل کہف کے قصے میں ہے، «وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا» [18-الکھف:25] ‏‏‏‏، ” وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو برس اور زیادہ کئے “۔

پس شمسی حساب سے اہل کتاب کو جو مدت ان کی غار کی معلوم تھی، وہ تین سو سال کی تھی، نو بڑھا کر قمری حساب پورا ہو گیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لے کر جو بنی اسرائیل کے آخری نبی علیہ السلام تھے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جو علی الا طلاق خاتم الانبیاء تھے، «فترۃ» کا زمانہ تھا یعنی درمیان میں کوئی نبی نہیں ہوا۔

چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام سے یہ بہ نسبت اور لوگوں کے میں زیادہ اولیٰ ہوں، اس لیے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔ [صحیح بخاری:3442] ‏‏‏‏

اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو خیال کرتے ہیں کہ ان دونوں جلیل القدر پیغمبروں کے درمیان بھی ایک نبی گزرے ہیں، جن کا نام خالد بن سنان تھا۔ جیسے کہ قضاعی وغیرہ نے حکایت کی ہے۔

مقصود یہ ہے کہ خاتم الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس وقت تشریف لاتے ہیں جبکہ رسولوں کی تعلیم مٹ چکی ہے، ان کی راہیں بے نشان ہو چکی ہیں، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے، جگہ جگہ مخلوق پرستی ہو رہی ہے، سورج چاند بت آگ کی پوجا جا رہی ہے، اللہ کا دین بدل چکا ہے، کفر کی تاریکی نور دین پر چھا چکی ہے، دنیا کا چپہ چپہ سرکشی اور طغیانی سے بھر گیا ہے، عدل و انصاف بلکہ انسانیت بھی فنا ہو چکی ہے، جہالت و قساوت کا دور دورہ ہے، بجز چند نفوس کے اللہ کا نام لیوا زمین پر نہیں رہا، پس معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت و عزت اللہ کے پاس بہت بڑی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رسالت کی ذمہ داری ادا کی، وہ کوئی معمولی نہ تھی، صلی اللہ علیہ وسلم ۔

مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا مجھے میرے رب کا حکم ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں سکھاؤں، جن سے تم ناواقف ہو اور اللہ تعالیٰ نے مجھے آج بھی بتائی ہیں، فرمایا ہے ” میں نے اپنے بندوں کو جو کچھ عنایت فرمایا ہے وہ ان کیلئے حلال ہے، میں نے اپنے سب بندوں کو موحد پیدا کیا ہے، لیکن پھر شیطان ان کے پاس آتا ہے اور انہیں بہکاتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ وہ میرے ساتھ باوجود دلیل نہ ہونے کے شرک کریں “۔

سنو اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو دیکھا اور تمام عرب و عجم کو ناپسند فرمایا بجز ان چند بقایا بنی اسرائیل کے (‏‏‏‏جو توحید پر قائم ہیں) پھر (‏‏‏‏مجھ سے) فرمایا، ” میں نے تجھے اسی لیے اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ تیری آزمائش کروں اور تیری وجہ سے اوروں کی بھی آزمائش کر لوں۔ میں تجھ پر وہ کتاب نازل فرمائی ہے، جسے پانی دھو نہیں سکتا جسے تو سوتے جاگتے پڑھتا ہے “ ۔

پھر مجھے میرے رب نے حکم دیا کہ ” قریشیوں میں پیغام الٰہی پہنچاؤں “، میں نے کہا یا رب یہ تو میرا سر کچل کر روٹی جیسا بنا دیں گے ، پروردگار نے فرمایا ” تو انہیں نکال، جیسے انہوں نے تجھے نکالا تو ان سے جہاد کر، تیری امداد کی جائے گی “۔

” تو ان پر خرچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے گا، تو ان کے مقابلے پر لشکر بھیج، ہم اس سے پانچ گنا لشکر اور بھیجیں گے اپنے فرمانبرداروں کو لے کر اپنے نافرمانوں سے جنگ کر، جنتی لوگ تین قسم کے ہیں، بادشاہ عادل، توفیق خیر والا، صدقہ خیرات کرنے والا اور باوجود مفلس ہونے کے حرام سے بچنے والا، حالانکہ اہل و عیال بھی ہے، اور جہنمی لوگ پانچ قسم کے ہیں وہ سفلے لوگ جو بے دین، خوشامد خورے اور ماتحت ہیں، جن کی آل اولاد دھن دولت ہے اور وہ حائن لوگ جن کے دانت چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی ہوتے ہیں اور حقیر چیزوں میں بھی خیانت سے نہیں چوکتے اور وہ لوگ جو صبح شام لوگوں کو ان کے اہل و مال میں دھوکہ دیتے پھرتے ہیں اور بخیل ہیں “۔ فرمایا کذاب اور شنطیر یعنی بدگو ۔ یہ حدیث مسلم اور نسائی میں ہے۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏

مقصود یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سچا دین دنیا میں نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے لوگوں کو اندھیروں سے اور گمراہیوں سے نکال کر اجالے میں اور راہ راست پر لاکھڑا کیا اور انہیں روشن و ظاہر شریعت عطا فرمائی۔ اس لیے کہ لوگوں کا عذر نہ رہے، انہیں یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا، ہمیں نہ تو کسی نے کوئی خوشخبری سنائی نہ دھمکایا ڈرایا۔

پس کامل قدرتوں والے اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں علیہم السلام کو ساری دنیا کی ہدایت کیلئے بھیج دیا، وہ اپنے فرمانبرداروں کو ثواب دینے پر اور نافرمانوں کو عذاب کرنے پر قادر ہے۔