اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ حرم کی قربانی کی اور نہ پٹوں (والے جانوروں) کی اور نہ حرمت والے گھر کا قصد کرنے والوں کی، جو اپنے رب کا فضل اور خوشنودی تلاش کرتے ہیں، اور جب احرام کھول دو تو شکار کرو، اور کسی قوم کی دشمنی اس لیے کہ انھوں نے تمھیں مسجد حرام سے روکا، تمھیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ حد سے بڑھ جائو، اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔[2]
ان آیتوں میں اللہ ان کا بیان فرما رہا ہے جن کا کھانا اس نے حرام کیا ہے، یہ خبر ان چیزوں کے نہ کھانے کے حکم میں شامل ہے۔ «الْمَيْتَةُ» وہ ہے جو از خود اپنے آپ مر جائے، نہ تو اسے ذبح کیا جائے، نہ شکار کیا جائے۔ اس کا کھانا اس لیے حرام کیا گیا کہ اس کا وہ خون جو مضر ہے اسی میں وہ جاتا ہے، ذبح کرنے سے تو بہہ جاتا ہے اور یہ خون دین اور بدن کو مضر ہے، ہاں یہ یاد رہے ہر مردار حرام ہے مگر مچھلی نہیں۔
کیونکہ موطا مالک، مسند شافعی، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ۔ [سنن ابوداود:83،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور اسی طرح، ٹڈی بھی گو خود ہی مرگئی ہو، حلال ہے۔ اس کی دلیل کی حدیث آ رہی ہے۔
«دَّمُ» سے مراد «أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا» [6-الأنعام:145] یعنی ” وہ خون ہے جو بوقت ذبح بہتا ہے “۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آیا تلی کھا سکتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ہاں“، لوگوں نے کہا وہ تو خون ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ہاں صرف وہ خون حرام ہے جو بوقت ذبح بہا ہو۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی یہی فرماتی ہیں کہ ”صرف بہا ہوا خون حرام ہے۔“ امام شافعی حدیث لائے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے لیے دو قسم کے مردے اور دو خون حلال کئے گئے ہیں، مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی ۔ [سنن ابن ماجہ:3314،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دارقطنی اور بیہقی میں بھی بروایت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں۔
حافظ بیہقی فرماتے ہیں ”عبد الرحمان کے ساتھ ہی اسے اسماعیل بن ادریس اور عبداللہ بھی روایت کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں یہ دونوں بھی ضعیف ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے ضعف میں کمی بیشی ہے۔ لیمان بن بلال نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور وہ ہیں بھی ثقہ لیکن اس روایت کو بعض نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف رکھا ہے۔
حافظ ابوزرعہ رازی فرماتے ہیں ”زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے۔“ ابن ابی حاتم میں سدی بن عجلان رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ”مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی طرف بھیجا کہ میں انہیں اللہ کی طرف بلاؤں اور احکام اسلام ان کے سامنے پیش کروں۔ میں وہاں پہنچ کر اپنے کام میں مشغول ہوگیا، اتفاقاً ایک روز وہ ایک پیالہ خون کا بھر کر میرے سامنے آ بیٹھے اور حلقہ باندھ کر کھانے کے ارادے سے بیٹھے اور مجھے سے کہنے لگے آؤ سدی تم بھی کھالو میں نے کہا۔ تم غضب کر رہے ہو میں تو ان کے پاس سے آ رہا ہوں جو اس کا کھانا ہم سب پر حرام کرتے ہیں، تب تو وہ سب کے سب میری طرف متوجہ ہو گئے اور کہا پوری بات کہو تو میں نے یہی آیت «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ» الخ، پڑھ کر سنا دی۔“ [طبرانی کبیر:8074:ضعیف]
یہ روایت ابن مردویہ میں بھی ہے اس میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ ”میں وہاں بہت دنوں تک رہا اور انہیں پیغام اسلام پہنچاتا رہا لیکن وہ ایمان نہ لائے، ایک دن جبکہ میں سخت پیاسا ہوا اور پانی بالکل نہ ملا تو میں نے ان سے پانی مانگا اور کہا کہ پیاس کے مارے میرا برا حال ہے، تھوڑا سا پانی پلا دو، لیکن کسی نے مجھے پانی نہ دیا، بلکہ کہا ہم تو تجھے یونہی پیاسا ہی تڑپا تڑپا کر مار ڈالیں گے، میں غمناک ہو کر دھوپ میں تپتے ہوئے انگاروں جیسے سنگریزوں پر اپنا کھردرا کمبل منہ پر ڈال کر اسی سخت گرمی میں میدان میں پڑا رہا، اتفاقاً میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بہترین جام لیے ہوئے اور اس میں بہترین خوش ذائقہ مزیدار پینے کی چیز لیے ہوئے میرے پاس آیا اور جام میرے ہاتھ میں دے دیا، میں نے خوب پیٹ بھر کر اس میں سے پیا، وہیں آنکھ کھل گئی تو اللہ کی قسم مجھے مطلق پیاس نہ تھی بلکہ اس کے بعد سے لے کر آج تک مجھے کبھی پیاس کی تکلیف ہی نہیں ہوئی، بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ پیاس ہی نہیں لگی۔“
”یہ لوگ میرے جاگنے کے بعد آپس میں کہنے لگے کہ آخر تو یہ تمہاری قوم کا سردار ہے، تمہارا مہمان بن کر آیا ہے، اتنی بے رخی بھی ٹھیک نہیں کہ ایک گھونٹ پانی بھی ہم اسے نہ دیں، چنانچہ اب یہ لوگ میرے پاس کچھ لے کر آئے، میں نے کہا اب تو مجھے کوئی حاجت نہیں، مجھے میرے رب نے کھلا پلا دیا، یہ کہہ کر میں نے انہیں اپنا بھرا ہوا پیٹ دکھا دیا، اس کرامت کو دیکھ کر وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔“ [طبرانی کبیر:8074:ضعیف]
اعشی نے اپنے قصیدے میں کیا ہی خواب کہا ہے کہ «وَإِيَّاكَ وَالْمَيْتَاتِ لَا تَقْرَبَنَّهَا» «وَلَا تَأْخُذَنَّ عَظْمًا حَدِيدًا فَتَفْصِدَا» «وَذَا النُّصُبِ الْمَنْصُوبَ لَا تَأْتِيَنَّهُ» «وَلَا تَعْبُدِ الْأَصْنَامَ وَاللَّهَ فَاعْبُدَا»”مردار کے قریب بھی نہ ہو اور کسی جانور کی رگ کاٹ کر خون نکال کر نہ پی اور پرستش گاہوں پر چڑھا ہوا نہ کھا اور اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کر، صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کر۔“
«لَحْمُ الْخِنزِيرِ» حرام ہے خواہ وہ جنگلی ہو، لفظ «لَحْمُ» شامل ہے اس کے تمام اجزاء کو، جس میں چربی بھی داخل ہے پس ظاہر یہ کی طرح تکلفات کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ دوسری آیت میں سے «أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ» [6-الأنعام:145] لے کر ضمیر کا مرجع خنزیر کو بتلاتے ہیں تاکہ اس کے تمام اجزاء حرمت میں آ جائیں۔ درحقیقت یہ لغت سے بعید ہے مضاف الیہ کی طرف سے ایسے موقعوں پر ضمیر پھرتی ہی نہیں، صرف مضاف ہی ضمیر کا مرجع ہوتا ہے۔ صاف ظاہر بات یہی ہے کہ لفظ «لَحْمُ» شامل ہے تمام اجزاء کو۔ لغت عرب کا مفہوم اور عام عرف یہی ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق شطرنج کھیلنے والا اپنے ھاتھوں کو سور کے گوشت و خون میں رنگنے والا ہے ۔ [صحیح مسلم:2260] خیال کیجئے کہ صرف چھونا بھی شرعاً کس قدر نفرت کے قابل ہے، تو پھر کھانے کیلئے بے حد برا ہونے میں کیا شک رہا؟ اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو خواہ چربی ہو خواہ اور۔
بخاری و مسلم میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، خنزیر بتوں کی تجارت کی ممانعت کر دی ہے ، پوچھا گیا کہ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردار کی چربی کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟“ وہ کشتیوں پر چڑھائی جاتی ہے، کھالوں پر لگائی جاتی ہے اور چراغ جلانے کے کام بھی آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! وہ حرام ہے ۔ [صحیح بخاری:2236]
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ابوسفیان نے ہر قل سے کہا ”وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں مردار سے اور خون سے روکتا ہے۔“ [مسند ابی عوانہ:6734]
وہ جانور بھی حرام ہے جس کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اسے فرض کر دیا وہ اسی کا نام لے کر جانور کو ذبح کرے، پس اگر کوئی اس سے ہٹ جائے اور اس کے نام پاک کے بدلے کسی بت وغیرہ کا نام لے، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو تو یقیناً وہ جانور بالاجماع حرام ہو جائے گا، ہاں جس جانور کے ذبیحہ کے وقت بسم اللہ کہنا رہ جائے، خواہ جان بوجھ کر خواہ بھولے چوکے سے وہ حرام ہے یا حلال؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے جس کا بیان سورۂ انعام میں آئیگا۔
ابوالطفیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”حضرت آدم کے وقت سے لے کر آج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہیں، کس وقت ان میں سے کوئی بھی حلال نہیں ہوئی (١) مردار (٢) خون (٣) سور کا گوشت (٤) اور اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی چیز۔ البتہ بنو اسرائیل کے گناہگاوں کے گناہوں کی وجہ سے بعض غیر حرام چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئی تھیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ وہ دوبارہ حلال کر دی گئیں، لیکن بنو اسرائیل نے آپ علیہ السلام کو سچا نہ جانا اور آپ علیہ السلام کی مخالفت کی۔ [ابن ابی حاتم] یہ اثر غریب ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفے کے حاکم تھے اس وقت ابن نائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر تھا، فرزوق کے دادا غالب کے مقابل ہوا اور یہ شرط ٹھہری کہ دونوں آمنے سامنے ایک ایک سو اونٹوں کی کوچیں کاٹیں گے، چنانچہ کوفے کی پشت پر پانی کی جگہ پر جب ان کے اونٹ آئے تو یہ اپنی تلواریں لے کر کھڑے ہوگئے اور اونٹوں کی کوچیں کاٹنی شروع کیں اور دکھاوے، سناوے اور فخریہ ریاکاری کیلئے دونوں اس میں مشغول ہو گئے۔
کوفیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے گدھوں اور خچروں پر سوار ہو کر گوشت لینے کیلئے آنا شروع ہوئے، اتنے میں جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر یہ منادی کرتے ہوئے وہاں پہنچے کہ ”لوگو یہ گوشت نہ کھانا یہ جانور «مَا اُهِلَّ بِهِ لِغَیْرِ اللهِ» میں شامل ہیں۔“ [ابن ابی حاتم] یہ اثر بھی غریب ہے ہاں اس کی صحت کی شاہد وہ حدیث ہے جو ابوداؤد میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراب کی طرف مقابلہ میں کوچیں کاٹنے سے ممانعت فرما دی ۔ [سنن ابوداود:2820،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] پھر ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ محمد بن جعفر رحمہ اللہ نے اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ پر وقف کیا ہے۔
ابوداؤد کی اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں شخصوں کا کھانا کھانا منع فرما دیا جو آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا اور ریا کاری کرنا چاہتے ہوں ۔ [سنن ابوداود:3754،قال الشيخ الألباني:صحیح]
«مُنْخَنِقَةُ» جس کا گلا گھٹ جائے خواہ کسی نے عمداگلا گھونٹ کر گلا مروڑ کر اسے مار ڈالا ہو، خواہ از خود اس کا گلا گھٹ گیا ہو۔ مثلاً اپنے کھوٹنے میں بندھا ہوا ہے اور بھاگنے لگا، پھندا گلے میں پڑ گیا اور کھچ کھچاؤ کرتا ہوا مر گیا پس یہ حرام ہے۔
«مَوْقُوْدَةٌ» وہ ہے جس جانور کو کسی نے ضرب لگائی، لکڑی وغیرہ ایسی چیز سے جو دھاری دار نہیں لیکن اسی سے وہ مر گیا، تو وہ بھی حرام ہے، جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ جانور کولٹھ سے مار ڈالتے اور پھر کھاتے۔ لیکن قرآن نے ایسے جانور کو حرام بتایا۔
صحیح سند سے مروی ہے کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں معراض سے شکار کھیلتا ہوں تو کیا حکم ہے؟ فرمایا: جب تو اسے پھینکے اور وہ جانور کو زخم لگائے تو کھا سکتا ہے اور اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگے تو وہ جانور لٹھ مارے ہوئے کے حکم میں ہے اسے نہ کھا ۔ [صحیح بخاری:5476]
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جسے دھار اور نوک سے شکار کیا ہو اور اس میں جسے چوڑائی کی جانب سے لگا ہو فرق کیا۔ اول کو حلال اور دوسرے کو حرام۔ فقہاء کے نزدیک بھی یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔ ہاں اختلاف اس میں ہے کہ جب کسی زخم کرنے والی چیز نے شکار کو صدمہ تو پہنچایا لیکن وہ مرا ہے اس کے بوجھ اور چوڑائی کی طرف سے تو آیا یہ جانور حلال ہے یا حرام۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس میں دونوں قول ہیں، ایک تو حرام ہونا اوپر والی حدیث کو سامنے رکھ کر۔ دوسرے حلال کرنا کتے کے شکار کی حلت کو مدنظر رکھ کر۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل ملاحظہ ہو۔
[فصل] علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور کتے نے اسے اپنی مار سے اور بوجھ سے مار ڈالا، زخمی نہیں کیا تو وہ حلال ہے یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ حلال ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ عام ہیں «فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ» [5-المائدہ:4] یعنی ” وہ جن جانوروں کو روک لیں تم انہیں کھا سکتے ہو “۔
اسی طرح سیدنا عدی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی صحیح حدیثیں بھی عام ہی ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھیوں نے امام صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے اور متاخرین نے اس کی صحت کی ہے، جیسے نووی اور رافعی رحمہ اللہ مگر میں کہتا ہوں کہ گو یوں کہا جاتا ہے لیکن امام صاحب کے کلام سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا۔ ملاحظہ ہو کتاب الام اور مختصر ان دونوں میں جو کلام ہے وہ دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے۔
پس دونوں فریقوں نے اس کی توجیہہ کر کے دونوں جانب علی الاطلاق ایک قول کہہ دیا۔ ہم تو بصد مشکل صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس بحث میں حلال ہونے کے قول کی حکایت کچھ قدرے قلیل زخم کا ہونا بھی ہے۔ گو ان دونوں میں سے کسی کی تصریح نہیں، اور وہ کسی کی مضبوط رائے، ابن الصباح نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے حلال ہونے کا قول نقل کیا ہے اور دوسرا کوئی قول ان سے نقل نہیں کیا اور امام ابن جریر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس قوت کو سلمان فارسی، ابوہریرہ، سعد بن وقاص اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے لیکن یہ بہت غریب ہے اور دراصل ان بزرگوں سے صراحت کے ساتھ یہ اقوال نہیں پائے جاتے۔ یہ صرف اپنا تصرف ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حلال نہیں، امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے، مزنی نے روایت کیا ہے اور یہی مشہور ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اور یہی قول ٹھیک ہونے سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ اس لیے کہ اصولی قواعد اور احکام شرعی کے مطابق یہی جاری ہے۔
ابن الصباغ نے رافع بن خدیج کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کل دشمنوں سے بھڑنے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں تو کیا ہم تیز بانس سے ذبح کر لیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز خون بہائے اور اس کے اوپر اللہ کا نام ذکر کیا جائے اسے کھا لیا کرو ۔ [صحیح بخاری:5503] یہ حدیث گو ایک خاص موقعہ کیلئے ہے لیکن عام الفاظ کا حکم ہوگا۔
جیسے کہ جمہور علماء اصول و فروغ کا فرمان ہے، اس کی دلیل وہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ تبع جو شہد کی نبیذ سے ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ پینے کی چیز جو نشہ لائے حرام ہے ۔ [صحیح بخاری:5585]
پس یہاں سوال ہے شہد کی نبیذ سے لیکن جو اب کے الفاظ عام ہیں اور مسئلہ بھی ان سے عام سمجھا گیا، اسی طرح اوپر والی حدیث ہے کہ گو سوال ایک خاص نوعیت میں ذبح کرنے کا ہے لیکن جواب کے الفاظ اسی اور اس کے سوا کی عام نوعیتوں پر مشتمل ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ایک خاص معجزہ ہے کہ الفاظ تھوڑے اور معافی بہت، اسے ذہن میں رکھنے کے بعد اب غور کیجئے کہ کتے کے صدمے سے جو شکار مر جائے یا اس کے بوجھ یا تھپڑ کی وجہ سے شکار کا دم نکل جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا خون کسی چیز سے نہیں بہا، پس اس حدیث کے مفہوم کی بناء پر وہ حلال نہیں ہو سکتا۔
اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کو کتے کے شکار کے مسئلہ سے دور کا تعلق بھی نہیں، اس لیے کہ سائل نے ذبح کرنے کے ایک آلے کی نسبت سوال کیا تھا۔ ان کا سوال اس چیز کی نسبت نہ تھا، جس سے ذبح کیا جائے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت اور ناخن کو مستثنیٰ کر لیا اور فرمایا: سوائے دانت اور ناخن کے اور میں تمہیں بتاؤں کہ انکے سوا کیوں؟ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۔ [صحیح بخاری:5498]
اور یہ قاعدہ ہے کہ مستثنیٰ کی دلالت جنس مستثنیٰ منہ پر ہوا کرتی ہے، ورنہ متصل نہیں مانا جا سکتا، پس ثابت ہوا کہ سوال آلہ ذبح کا ہی تھا تو اب کوئی دلالت تمہارے قول پر باقی نہیں رہی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے جملے کو دیکھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جو چیز خون بہا دے اور اس پر نام اللہ بھی لیا گیا ہو، اسے کھا لو ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ ذبح کر لو۔ پس اس جملہ سے دو حکم ایک ساتھ معلوم ہوتے ہیں، ذبح کرنے کے آلہ کا حکم بھی اور خود ذبیحہ کا حکم بھی اور یہ کہ اس جانور کا خون کسی آلہ سے بہانا ضروری ہے، جو دانت اور ناخن کے سوا ہو۔ ایک مسلک تو یہ ہے۔
دوسرا مسلک جو مزنی کا ہے وہ یہ کہ ”تیر کے بارے میں صاف لفظ آچکے کہ اگر وہ اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہے اور جانور مرگیا ہے تو نہ کھاؤ اور اگر اس نے اپنی دھار اور انی سے زخم کیا ہے پھر مرا ہے تو کھا لو اور کتے کے بارے میں علی الاطلاق احکام ہیں۔“ پس چونکہ موجب یعنی شکار دونوں جگہ ایک ہی ہے تو مطلق کا حکم بھی مقید پر محمول ہو گا گو سبب الگ الگ ہوں۔
جیسے کہ ظہار کے وقت آزادگی گردن جو مطلق ہے محمول کی جاتی ہے قتل کی آزادگی گردن پر جو مقید ہے ایمان کے ساتھ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت شکار کے اس مسئلہ میں ہے یہ دلیل ان لوگوں پر یقیناً بہت بڑی حجت ہے جو اس قاعدہ کی اصل کو مانتے ہیں اور چونکہ ان لوگوں میں اس قاعدے کے مسلم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو وہ اسے تسلیم کریں ورنہ کوئی پختہ جواب دیں۔
علاوہ ازیں فریق یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اس شکار کو کتے نے بوجہ اپنے ثقل کے مار ڈالا ہے اور یہ ثابت ہے کہ تیر جب اپنی چوڑائی سے لگ کر شکار کو مار ڈالے تو وہ حرام ہو جاتا ہے پس اس پر قیاس کر کے کتے کا یہ شکار بھی حرام ہو گیا کیونکہ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں شکار کے آلات ہیں اور دونوں نے اپنے بوجھ اور زور سے شکار کی جان لی ہے اور آیت کا عموم اس کے معارض نہیں ہو سکتا کیونکہ عموم پر قیاس مقدم ہے جیسا کہ چاروں اماموں اور جمہور کا مذہب ہے۔ یہ مسلک بھی بہت اچھا ہے
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت «فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ» یعنی ” شکار کتے جس جانور کو روک رکھیں اس کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے “۔ یہ عام نوعیت پر یعنی اسے بھی جسے زخم کیا ہو اور اس کے سوا کو بھی، لیکن جس صورت پر اس وقت بحث ہے وہ یا تو ٹکر لگا ہوا ہے یا اس کے حکم پر یا گلا گھونٹا ہوا ہے یا اس کے حکم میں، بہر صورت اس آیت کی تقدیم ان وجوہ پر ضرور ہو گی۔
اولاً تو یہ کہ شارع نے اس آیت کا حکم شکار کی حالت میں معتبر مانا ہے۔ کیونکہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگا ہے تو وہ لٹھ مارا ہوا ہے اسے نہ کھاؤ ۔
جہاں تک ہمارا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ لٹھ سے اور مار سے مرا ہوا تو شکار کی حالت میں معتبر ہو اور سینگ اور ٹکر لگا ہوا معتبر نہ ہو۔ پس جس صورت میں اس وقت بحث ہو رہی ہے اس جانور کو حلال کہنا اجماع کو توڑنا ہوگا، جسے کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا بلکہ اکثر علماء اسے ممنوع بتاتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ آیت «فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ» اپنے عموم پر باقی نہیں اور اس پر اجتماع ہے، بلکہ آیت سے مراد صرف حلال حیوان ہیں۔ تو اس کے عام الفاظ سے وہ حیوان جن کا کھانا حرام ہے بالاتفاق نکل گئے اور یہ قاعدہ ہے کہ عموم محفوظ عموم غیر محفوظ پر مقدم ہوتا ہے۔
ایک تقریر اسی مسئلہ میں اور بھی گوش گزار کر لیجئے کہ اس طرح کا شکار میتہ کے حکم میں ہے، پس جس وجہ سے مردار حرام ہے، وہی وجہ یہاں بھی ہے تو یہ بھی اسی قیاس سے حلال نہیں۔ ایک اور وجہ بھی سنئے کہ حرمت کی آیت «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ» [5-المائدہ:3] الخ، بالکل محکم ہے، اس میں کسی طرح نسخ کا دخل نہیں، نہ کوئی تخصیص ہوئی ہے، ٹھیک اسی طرح آیت تحلیل بھی محکم ہی ہونی چاہیئے۔
یعنی فرمان باری تعالیٰ آیت «يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ» [5-المائدہ:4] ” لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کیلئے حلال کیا ہے تو کہدے کہ تمام طیب چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں “۔
جب دونوں آیتیں محکم اور غیر منسوخ ہیں تو یقیناً ان میں تعارض نہ ہونا چاہیئے لہٰذا حدیث کو اس کی وضاحت کیلئے سمجھنا چاہیئے اور تیر کا واقعہ اسی کی شہادت دیتا ہے، جس میں یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت میں یہ صورت واضح طور پر شامل ہے کہ آنی اور دھار تیزی کی طرف سے زخم کرے تو جانور حلال ہو گا، کیونکہ وہ (طیبات) میں آگیا۔
ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بیان کر دیا گیا کہ آیت تحریم میں کون سی صورت شامل ہے۔ یعنی وہ صورت جس میں جانور کی موت تیر کی چوڑائی کی چوٹ سے ہوئی ہے، وہ حرام ہو گیا جسے کھایا نہیں جائے گا۔ اس لیے کہ وہ «وقیذ» ہے اور «وقیذ» آیت تحریم کا ایک فرد ہے، ٹھیک اسی طرح اگر شکاری کتے نے جانور کو اپنے دباؤ زور بوجہ اور سخت پکڑ کی وجہ سے مار ڈالا ہے تو وہ «نطیح» ہے یا «فطیح» یعنی ٹکر اور سینگ لگے ہوئے کے حکم میں ہے اور حلال نہیں، ہاں اگر اسے مجروح کیا ہے تو وہ آیت تحلیل کے حکم میں ہے اور یقیناً حلال ہے۔
اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر یہی مقصود ہوتا تو کتے کے شکار میں بھی تفصیل بیان کر دی جاتی اور فرما دیا جاتا کہ اگر وہ جانور کو چیرے پھاڑے، زخمی کرے تو حلال اور اگر زخم نہ لگائے تو حرام۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ کتے کا بغیر زخمی کئے قتل کرنا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اس کی عادت یہ نہیں بلکہ عادت تو یہ ہے کہ اپنے پنجوں یا کچلیوں سے ہی شکار کو مارے یا دونوں سے، بہت کم کبھی کبھی شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دباؤ اور بوجھ سے شکار کو مار ڈالے، اس لیے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کا حکم بیان کیا جائے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب آیت تحریم میں «مَيْتَةُ، مَوْقُوذَةُ، مُتَرَدِّيَةُ، لنَّطِيحَةُ» کی حرمت موجود ہے تو اس کے جاننے والے کے سامنے اس قسم کے شکار کا حکم بالکل ظاہر، تیر اور معراض میں اس حکم کو اس لیے الگ بیان کر دیا کہ وہ عموماً خطا کر جاتا ہے بالخصوص اس شخص کے ہاتھ سے جو قادر تیر انداز نہ ہو یا نشانے میں خطا کرتا ہو، اس لیے اس کے دونوں حکم تفصیل وار بیان فرما دیئے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
دیکھئیے چونکہ کتے کے شکار میں یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے وہ اپنے کئے ہوئے شکار میں سے کچھ کھا لے، اس لیے یہ حکم صراحت کے ساتھ الگ بیان فرما دیا اور ارشاد ہوا کہ اگر وہ خود کھا لے تو تم اسے نہ کھاؤ، ممکن ہے کہ اس نے خود اپنے لیے ہی شکار کو روکا ہو۔ [صحیح مسلم:1929] یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے اور یہ صورت اکثر حضرات کے نزدیک آیت تحلیل کے عموم سے مخصوص ہے اور ان کا قول ہے کہ جس شکار کو کتا کھا لے اس کا کھانا حلال نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کیا جاتا ہے۔ حسن، شعبی اور نخعی رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور اسی کی طرف ابوحنیفہ، ان کے دونوں اصحاب، احمد بن حنبل اور مشہور روایت میں شافعی رحمہ اللہ علیہم بھی گئے ہیں۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں سیدنا علی، سعد، سلمان، ابوہریرہ، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ گو کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تاہم اسے کھا لینا جائز ہے، بلکہ سعد، سلمان، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ فرماتے ہیں گو کتا آدھا حصہ کھا گیا ہو تاہم اس شکار کا کھا لینا جائز ہے۔
امام مالک اور شافعی رحمہ اللہ علیہم بھی اپنے قدیم قول میں اسی طرف گئے ہیں اور قول جدید میں دونوں قولوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جیسے کہ امام ابو منصور بن صباغ وغیرہ نے کہا ہے۔
ابوداؤد میں قوی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو اپنے کتے کو چھوڑے اور اللہ کا نام تو نے لے لیا ہو تو کھا لے، گو اس نے بھی اس میں سے کھا لیا ہو اور کھا لے اس چیز کو جسے تیرا ہاتھ تیری طرف لوٹا لائے ۔ [سنن ابوداود:حدیث2852،قال الشيخ الألباني:-منکر] نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔
تفسیر ابن جریر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا، اس نے شکار کو پکڑا اور اس کا کچھ گوشت کھا لیا تو اسے اختیار ہے کہ باقی جانور یہ اپنے کھانے کے کام میں لے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11214] اس میں اتنی علت ہے کہ یہ موقوفاً سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے قول سے مروی ہے، جمہور نے سیدنا عدی رضی اللہ عنہ والی حدیث کو اس پر مقدم کیا ہے اور ابوثعبلہ وغیرہ کی حدیث کو ضعیف بتایا ہے۔
بعض علماء کرام نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے، جب کتے نے شکار پکڑا اور دیر تک اپنے مالک کا انتظار کیا، جب وہ نہ آیا تو بھوک وغیرہ کے باعث اس نے کچھ کھا لیا اس صورت میں یہ حکم ہے کہ باقی کا گوشت مالک کھا لے کیونکہ ایسی حالت میں یہ ڈر باقی نہیں رہتا کہ شاید کتا ابھی شکار کا سدھارا ہوا نہیں، ممکن ہے اس نے اپنے لیے ہی شکار کیا ہو، بخلاف اس کے کہ کتے نے پکڑتے ہی کھانا شروع کر دیا تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے لیے ہی شکار دبوچا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اب رہے شکاری پرند تو امام شافعی رحمة الله نے صاف کہا ہے کہ یہ کتے کے حکم میں ہیں۔ تو اگر یہ شکار میں سے کچھ کھا لیں تو شکار کا کھانا جمہور کے نزدیک تو حرام ہے اور دیگر کے نزدیک حلال ہے، ہاں مزنی کا مختار یہ ہے کہ گوشکاری پرندوں نے شکار کا گوشت کھا لیا ہو تاہم وہ حرام نہیں۔
یہی مذہب ابوحنیفہ اور احمد رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔ اس لیے کہ پرندوں کو کتوں کی طرح مار پیٹ کر سدھا بھی نہیں سکتے اور وہ تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اسے کھائے نہیں، یہاں بات معاف ہے اور اس لیے بھی کہ نص کتے کے بارے میں وارد ہوئی ہے پرندوں کے بارے میں نہیں۔