مضبوط پناہ گاہیں ناقابل تسخیر مدافعت اور شافی علاج:
مسند احمد میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس سورت کو اور اس کے بعد کی سورت کو قرآن شریف میں نہیں لکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری گواہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» الخ، تو میں نے بھی یہی کہا۔ پھر کہا «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» الخ، تو میں نے یہی کہا پس ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ [مسند احمد:129/5:قال الشيخ شعيب ارناؤط:صحيح وهذا اسناد حسن ]
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ان دونوں سورتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ کے بھائی ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو ان دونوں کو قرآن شریف میں سے کاٹ دیا کرتے تھے تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے کہا گیا کہو میں نے کہا“ پس ہم بھی کہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ [مسند حميدي:374:قال الشيخ زبير علي زئي:صحيح ]
مسند میں بھی یہ روایت الفاظ کے تغیر و تبدل کے ساتھ مروی ہے۔ [مسند احمد:129/5:قال الشيخ شعيب ارناؤط:صحيح وهذا اسناد حسن ]
اور بخاری شریف میں بھی ہے۔ [صحيح بخاري:4977 ]
مسند ابویعلی وغیرہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے اور نہ قرآن میں انہیں شمار کرتے تھے، [طبراني كبير:9152] بلکہ قاریوں اور فقہیوں کے نزدیک مشہور بات یہی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے، شاید انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہو اور تواتر کے ساتھ ان تک نہ پہنچا ہو، پھر یہ اپنے اس قول سے رجوع کر کے جماعت کے قول کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان سورتوں کو قرآن میں داخل کیا جس کے نسخے چاروں طرف پھیلے، «ولله الحمد والمنه»
صحیح مسلم میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نہیں دیکھا چند آیتیں مجھ پر اس رات ایسی نازل ہوئی ہیں جن جیسی کبھی دیکھی نہیں گئیں،“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی، یہ حدیث مسند احمد، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ [صحيح مسلم:814 ]
مسند احمد میں ہے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی گلیوں میں آپ کی سواری کی نکیل تھامے چلا جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اب آؤ تم سوار ہو جاؤ“، میں نے اس خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانوں گا تو نافرمانی ہو گی سوار ہونا منظور کر لیا، تھوڑی دیر کے بعد میں اتر گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقبہ میں تجھے دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟“ میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! ضرور سکھایئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سورۃ «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» پڑھائیں، پھر نماز کھڑی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور ان ہی دونوں سورتوں کی تلاوت کی پھر مجھ سے فرمایا: ”تو نے دیکھ لیا؟ سن جب تو سوئے اور جب کھڑا ہوا نہیں پڑھ لیا کر“، ترمذی ابوداؤد اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے۔ [سنن ابوداود:1462،قال الشيخ الألباني:صحيح]
مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کا حکم دیا۔ [سنن ابوداود:1523،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ حدیث بھی ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں۔
اور روایت میں ہے کہ ان جیسی سورتیں تو نے پڑھی ہی نہیں۔ [مسند احمد:146/4:قال الشيخ شعيب ارناؤط:صحیح وهذا اسناد ضعیف]
عقبہ والی حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے ساتھ آپ کا ہونا مذکور ہے اس کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ سورتیں بتائیں، تو مجھے کچھ زیادہ خوش ہوتے نہ دیکھ کر فرمایا کہ شاید تو انہیں چھوٹی سی سورتیں سمجھتا ہے، سن نماز کے قیام میں ان جیسی سورتوں کی قرأت اور ہے ہی نہیں۔ [مسند احمد:151/4:قال الشيخ شعيب ارناؤط:صحیح وهذا اسناد حسن]
نسائی شریف کی حدیث میں ہے کہ ان جیسی سورتیں کسی پناہ پکڑنے والے کے لئے اور نہیں [نسائی فی السنن الکبری:5433:حسن]
۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عقبہ سے یہ سورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائیں پھر فرمایا: ”نہ تو دعا کی ان جیسی اور سورتیں ہیں، نہ تعویذ کی“۔ [نسائی فی السنن الکبری:7838:حسن]
ایک روایت میں ہے صبح کی فرض نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی دونوں سورتوں سے پڑھائی ۔ [نسائی فی السنن الکبری:7850:حسن]
اور حدیث میں ہے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے جاتے ہیں اور آپ کے قدم پر ہاتھ رکھ کر عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ! مجھے سورۃ ہود یا سورۃ یوسف پڑھائے، آپ نے فرمایا: ”اللہ کے پاس نفع دینے والی کوئی سورت «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» سے زیادہ نہیں ۔ [نسائی فی السنن الکبری:7839:ضعیف]
اور حدیث میں ہے کہ آپ نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ”میں تمہیں بتاؤں کہ پناہ حاصل کرنے والوں کے لئے ان دونوں سورتوں سے افضل سورت اور کوئی نہیں“۔ [نسائی فی السنن الکبری:7841:حسن]
پس بہت سی حدیثیں اپنے تواتر کی وجہ سے اکثر علماء کے نزدیک قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں اور وہ حدیث بھی بیان ہو چکی کہ آپ نے ان دونوں سورتوں اور سورۃ اخلاص کی نسبت فرمایا کہ چاروں کتابوں میں ان جیسی سورتیں نہیں اتریں،
نسائی وغیرہ میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے سواریاں کم تھیں باری باری سوار ہوتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے مونڈھوں پر ہاتھ رکھ کر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں اور فرمایا: ”جب نماز پڑھو، تو انہیں پڑھا کرو۔ [مسند احمد:479/5:قال الشيخ شعيب ارناؤط:اسنادہ صحیح]
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ «واللہ اعلم» عبداللہ بن سلام کے سینے پر ہاتھ رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں سمجھے؟ وہ نہ سمجھے کہ کیا کہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح پناہ مانگا کر، اس جیسی پناہ مانگنے کی اور سورت نہیں“۔ [نسائی فی السنن الکبری:7845:حسن]
نسائی کی اور حدیث میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ سے یہ دونوں سورتیں آپ نے پڑھوائیں پھر فرمایا: ”انہیں پڑھتا رہ ان جیسی سورتیں تو اور پڑھے گا“۔ [نسائی فی السنن الکبری:7854:حسن]
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی وہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک کر اپنے سر چہرے اور سامنے کے جسم پر پھیر لیتے تھے ۔ [موطا امام مالك:10:صحیح]
موطا امام مالک میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑتے تو ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیا کرتے تھے، جب آپ کی بیماری سخت ہوئی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا معوذات پڑھ کر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے جسم مبارک پر پھیرتی تھیں، اس عمل کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی برکت کا ہوتا تھا ۔ [صحیح بخاری:5016]
سورۃ ن کی تفسیر کے آخر میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی آنکھوں سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب یہ دونوں سورتیں اتریں تو آپ نے انہیں لے لیا اور باقی سب چھوڑ دیں ، امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں۔ [سنن ترمذي:2057،قال الشيخ الألباني:صحیح]
بیماری، وبا، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے بچاؤ کی دعا ٭٭
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» کہتے ہیں صبح کو، خود قرآن میں اور جگہ ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ» [6-الأنعام:96] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے «فَلَقِ» سے مراد مخلوق ہے۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے، لیکن وہ حدیث منکر ہے۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ تمام مخلوق کی برائی سے جس میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی۔
«غَاسِقٍ» سے مراد رات ہے۔ «إِذَا وَقَبَ» سے مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے، یعنی رات جب اندھیرا لیے ہوئے آ جائے، ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو «غَاسِقٍ» کہتے ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38375:ضعیف] بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ «غَاسِقٍ» ہے، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے۔
ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: «تَعَوَّذِي بِاَللَّهِ مِنْ شَرّ هَذَا الْغَاسِق إِذَا وَقَبَ»”اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ“ [سنن ترمذي:3366،قال الشيخ الألباني:حسن صحيح]
اور روایت میں ہے کہ «غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ» سے یہی مراد ہے، دونوں قولوں میں باآسانی یہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں جنہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر۔
دوسری حدیث میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، تو جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی «بِسْمِ اللَّه أَرْقِيك مِنْ كُلّ دَاء يُؤْذِيك وَمِنْ شَرّ كُلّ حَاسِد وَعَيْن اللَّه يَشْفِيك» یعنی ”اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفاء دے“ ۔ [سنن ترمذي:972،قال الشيخ الألباني:صحيح]
اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفاء بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بےاثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفاء عطا فرمائی۔
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادو کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گرہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گرہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا ۔ [مسند احمد:367/4:صحیح بغیر ھذا سیاق]
صحیح بخاری کتاب الطب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے۔ سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے، جب یہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئی ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: ”عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا، دو شخص آئے ایک میرے سرہانے بیٹھا ایک پائینتی کی طرف، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا: ان کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ کہا لبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے، کہا کس چیز میں؟ کہا سر کے بالوں اور کنگھی میں، پوچھا: دکھا کہاں ہے؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے، میں نے کہا بھی کہ اے اللہ کے رسول! ان سے بدلہ لینا چاہیئے، آپ نے فرمایا: ”الحمداللہ، اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفاء دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا“ ۔ [صحیح بخاری:5765]
دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حکم سے بند کر دیا گیا، [صحیح بخاری:6064]
یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی، تفسیر ثعلبی میں سیدنا ابن عباس اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہلا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لیے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذروان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے سر کے بال جھڑنے لگے، خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے، گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے سیدنا علی، سیدنا زبیر اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گرہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہو گئے۔
ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گزر چکی ہے، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہمیں اجازت دیجئیے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا: ”نہیں، اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا۔“ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہو چکے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»