پہلے وہ حدیث بیان ہو چکی ہے کہ یہ سورت چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ [سنن ترمذي:2895،قال الشيخ الألباني:ضعيف ]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عبید اللہ بن عبداللہ سے پوچھا: جانتے ہو سب سے آخر کون سی سورت اتری؟ جواب دیا کہ ہاں یہی سورت «اذا جآء» تو آپ نے فرمایا: تم سچے ہو۔ [نسائي] ، [صحيح مسلم:3024 ]
حافظ ابوبکر بزار اور حافظ بیہقی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت وارد کی ہے کہ یہ سورت ایام تشریق کے درمیان اتری تو آپ سمجھ گئے کہ یہ رخصت کی سورۃ ہے اسی وقت حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصویٰ کسی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے اور اپنا وہ پرزور خطبہ پڑھا جو مشہور ہے۔ [بيهقي:152/5:ضعيف ]
بیہقی میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو نبی علیہ السلام نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور فرمایا: ”مجھے میرے انتقال کی خبر آ گئی ہے“، سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا رونے لگیں پھر یکایک ہنس دیں جب اور لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: خبر انتقال نے تو رلا دیا لیکن روتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دی اور فرمایا: ”بیٹی صبر کرو، میری اہل میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے ملو گی“، تو مجھے بےساختہ ہنسی آ گئی۔ [طبراني كبير:11907:ضعيف]
گناہوں کی بخشش مانگو اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرو ٭٭
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بڑی عمر والے بدری مجاہدین کے ساتھ ساتھ عمر فاروق رضی اللہ عنہ مجھے بھی شامل کر لیا کرتے تھے تو شاید کسی کے دل میں اس کی کچھ ناراضگی پیدا ہوئی ہو گی اس نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ نہ آیا کریں، ان جتنے تو ہمارے بچے ہیں خلیقۃ المسلمین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم انہیں خوب جانتے ہو ایک دن سب کو بلایا اور مجھے بھی یاد فرمایا میں سمجھ گیا کہ آج انہیں کچھ دکھانا چاہتے ہیں جب ہم سب جا پہنچے تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے ہم سے پوچھا کہ سورۃ «إِذَا جَاءَ» کی نسبت تمہیں کیا علم ہے؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے اور گناہوں کی بخشش چاہنے کا حکم کیا گیا ہے کہ جب مدد اللہ آ جائے اور ہماری فتح ہو تو ہم یہ کریں اور بعض بالکل خاموش رہے تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا: پھر اور کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کا پیغام ہے آپ کو معلوم کرایا جا رہا ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی ختم ہونے کو ہے آپ تسبیح، حمد اور استفغار میں مشغول ہو جائیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہی میں بھی جانتا ہوں ۔ [صحیح بخاری:4970] جب یہ سورت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب اسی سال میرا انتقال ہو جائے گا مجھے میرے انتقال کی خبر دی گئی ہے ۔ [مسند احمد:217/1]
مجاہد، ابوالعالیہ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تھے فرمانے لگے: ”اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ کی مدد آ گئی اور فتح بھی یمن والے آ گئے“، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! یمن والے کیسے ہیں؟ فرمایا: ”وہ نرم دل لوگ ہیں سلجھی ہوئی طبیعت والے ہیں ایمان تو اہل یمن کا ہے اور سمجھ بھی اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن والوں کی ہے“ ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38230:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب یہ سوت اتری چونکہ اس میں آپ کے انتقال کی خبر تھی تو آپ نے اپنے کاموں میں اور کمر کس لی اور تقریباً وہی فرمایا جو اوپر گزرا۔ [طبرانی کبیر:11903]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ سورتوں میں پوری سورت نازل ہونے کے اعتبار سے سب سے آخری سورت یہی ہے ۔ [طبرانی کبیر:10736]
اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت اتری آپ نے اس کی تلاوت کی اور فرمایا: ”لوگ ایک کنارہ ہوں، میں اور میرے اصحاب ایک کنارہ میں ہیں، سنو فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں البتہ جہاد اور نیت ہے“۔
مروان کو جب یہ حدیث سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے سنائی تو یہ کہنے لگا، جھوٹ کہتا ہے اس وقت مروان کے ساتھ اس کے تخت پر سیدنا رافع بن خدیج اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما بھی بیٹھے تھے، تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ان دونوں کو بھی اس حدیث کی خبر ہے یہ بھی اس حدیث کو بیان کر سکتے ہیں لیکن ایک کو تو اپنی سرداری چھن جانے کا خوف ہے اور دوسرے کو زکوٰۃ کی وصولی کے عہدے سے سبکدوش ہو جانے کا ڈر ہے مروان نے یہ سن کر کوڑا اٹھا کر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کو مارنا چاہا ان دونوں بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے مروان سن ابوسعید نے سچ بیان فرمایا [مسند احمد:22/3:صحيح لغيره دون الجملة] یہ حدیث ثابت ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”ہجرت نہیں رہی ہاں جہاد اور نیت ہے جب تمہیں چلنے کو کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو“۔ [صحیح بخاری:1834]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض صحابہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے اس سورت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جب ہم پر اللہ تعالیٰ شہر اور قلعے فتح کر دے اور ہماری مدد فرمائے تو ہمیں حکم مل رہا ہے کہ ہم اس کی تعریفیں بیان کریں اس کا شکر کریں اور اس کی پاکیزگی بیان کریں، نماز ادا کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں یہ مطلب بھی بالکل صحیح ہے۔
اور یہ تفسیر بھی نہایت پیاری ہے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی [صحیح بخاری:1103] گو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ضحیٰ کی نماز تھی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضحیٰ کی نماز آپ ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے پھر اس دن جبکہ شغل اور کام بہت زیادہ تھا مسافرت تھی یہ کیسے پڑھی؟ آپ کی اقامت فتح کے موقعہ پر مکہ شریف میں رمضان شریف کے آخر تک انیس دن رہی آپ فرض نماز کو بھی قصر کرتے رہے روزہ بھی نہیں رکھا اور تمام لشکر جو تقریباً دس ہزار تھا اسی طرح کرتا رہا ان حقائق سے یہ بات صاف ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نماز فتح کے شکریہ کی نماز تھی اسی لیے سردار لشکر امام وقت پر مستحب ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہو تو داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح مدائن والے دن ایسا ہی کیا تھا ان آٹھ رکعت کو دو دو رکعت کر کے ادا کرے گو بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آٹھوں ایک ہی سلام سے پڑھ لے لیکن ابوداؤد کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے ۔ [سنن ابوداود:1290،قال الشيخ الألباني:ضعيف]
دوسری تفسیر بھی صحیح ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کی ہے کہ اس میں آپ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی کہ جب آپ اپنی بستی مکہ فتح کر لیں جہاں سے ان کفار نے آپ کو نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور آپ اپنی آنکھوں اپنی محنت کا پھل دیکھ لیں کہ فوجوں کی فوجیں آپ کے جھنڈے تلے آ جائیں جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں تو ہماری طرف آنے کی اور ہم سے ملاقات کی تیاریوں میں لگ جاؤ سمجھ لو کہ جو کام ہمیں تم سے لینا تھا پورا ہو چکا اب آخرت کی طرف نگاہیں ڈالو جہاں آپ کے لیے بہت بہتری ہے اور اس دنیا سے بہت زیادہ بھلائی آپ کے لیے وہاں ہے وہیں آپ کی مہمانی تیار ہے اور مجھ جیسا میزبان ہے تم ان نشانات کو دیکھ کر بکثرت میری حمد و ثناء کرو اور توبہ استغفار میں لگ جاؤ۔
صحیح بخاری کی حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع، سجدے میں بکثرت «سُبْحَانك اللَّهُمَّ رَبّنَا وَبِحَمْدِك اللَّهُمَّ اِغْفِرْ لِي» پڑھا کرتے تھے آپ قرآن کی اس آیت «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا» [110-النصر:3] پر عمل کرتے تھے [صحیح بخاری:794]
اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے «سُبْحَان اللَّه وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِر اللَّه وَأَتُوب إِلَيْهِ» اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف جھکتا ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ ”میرے رب نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب میں یہ علامت دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہو گیا اور دین اسلام میں فوجیں کی فوجیں داخل ہونے لگیں تو میں ان کلمات کو بکثرت کہوں چنانچہ بحمد اللہ میں اسے دیکھ چکا لہٰذا اب اس وظیفے میں مشغول ہوں“ ۔ [صحیح مسلم:484] (مسند احمد)
ابن جریر میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں بیٹھتے اٹھتے چلتے پھرتے آتے جاتے «سُبْحَان اللَّه وَبِحَمْدِهِ» پڑھا کرتے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے تو آپ نے اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا: ”مجھے حکم الٰہی یہی ہے“ ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:38248:ضعیف]
کسی مجلس میں بیٹھیں پھر وہ مجلس برخاست ہو تو کیا پڑھنا چاہیئے اسے ہم اپنی ایک مستقل تصنیف میں لکھ چکے ہیں۔
مسند احمد میں ہے کہ جب یہ سورت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اکثر اپنی نماز میں تلاوت کرتے اور رکوع میں تین مرتبہ یہ پڑھتے «سُبْحَانك اللَّهُمَّ رَبّنَا وَبِحَمْدِك اللَّهُمَّ اِغْفِرْ لِي إِنَّك أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِيم»۔ [مسند احمد:410/1:حسن لغیرہ]
فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے اس پر اتفاق ہے عموماً عرب قبائل اسی کے منتظر تھے کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آ جائیں اور مکہ ان کے زیر نگیں آ جائے تو پھر ان کے نبی ہونے میں ذرا سا بھی شک شبہ نہیں اب جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو یہ سب اسلام میں آ گئے اس کے بعد دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہو گیا اور ہر ایک قبیلے میں اسلام اپنا راج کرنے لگا۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
صحیح بخاری میں بھی سیدنا عمرو بن سلمہ کا یہ مقولہ موجود ہے کہ مکہ فتح ہوتے ہی ہر قبیلے نے اسلام کی طرف سبقت کی ان سب کو اسی بات کا انتظار تھا اور کہتے تھے کہ انہیں اور ان کی قوم کو چھوڑو دیکھو اگر یہ نبی برحق ہیں تو اپنی قوم پر غالب آ جائیں گے اور مکہ پر ان کا جھنڈا نصب ہو جائے گا ۔ [صحیح بخاری:4302]
ہم نے غزوہ فتح مکہ کا پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اپنی سیرۃ کی کتاب میں لکھا ہے جو صاحب تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ اس کتاب کو دیکھ لیں۔“ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
مسند احمد میں ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پڑوسی جب اپنے کسی سفر سے واپس آئے تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ان سے ملاقات کرنے کے لیے گئے انہوں نے لوگوں کی پھوٹ اور ان کے اختلاف کا حال بیان کیا اور ان کی نو ایجاد بدعتوں کا تذکرہ کیا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے اللہ کے حبیب شافع روز جزاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگوں کی فوجوں کی فوجیں اللہ کے دین میں داخل ہوئیں لیکن عنقریب جماعتوں کی جماعتیں ان میں سے نکلنے بھی لگ جائیں گی ۔ [مسند احمد:343/3:ضعیف]