قرآن مجيد

سورة القارعة
الْقَارِعَةُ[1]
وہ کھٹکھٹانے والی۔[1]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8، 9، 10، 11،

اعمال کا ترازو ٭٭

«قارعہ» بھی قیامت کا ایک نام ہے جیسے «الْحَاقَّةِ»، «الطَّامَّةِ»، «الصَّاخَّةِ»، «الْغَاشِيَةِ» وغیرہ اس کی بڑائی اور ہولناکی کے بیان کے لیے سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟ اس کا علم بغیر میرے بتائے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا، پھر خود بتاتا ہے کہ اس دن لوگ منتشر اور پراگندہ حیران و پریشان ادھر ادھر گھوم رہے ہوں گے، جس طرح پروانے ہوتے ہیں۔

اور جگہ فرمایا ہے «كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ» [54-القمر:7] ‏‏‏‏ گویا وہ ٹڈیاں ہیں پھیلی ہوئیں۔

پھر فرمایا: پہاڑوں کا یہ حال ہو گا کہ وہ دھنی ہوئی اون کی طرح ادھر ادھر اڑتے نظر آئیں گے، پھر فرماتا ہے اس دن ہر نیک و بد کا انجام ظاہر ہو جائے گا، نیکوں کی بزرگی اور بروں کی اہانت کھل جائے گی، جس کی نیکیاں وزن میں برائیوں سے بڑھ گئیں وہ عیش و آرام کی زندگی جنت میں بسر کرے گا، اور جس کی بدیاں نیکیوں پر چھا گئیں، بھلائیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا وہ جہنمی ہو جائے گا، وہ منہ کے بل اوندھا جہنم میں گرا دیا جائے گا۔

«ام» سے مراد دماغ ہے یعنی سر کے بل «ہاویہ» میں جائے گا اور یہ بھی معنی ہیں کہ فرشتے جہنم میں اس کے سر پر عذابوں کی بارش برسائیں گے اور یہ بھی مطلب ہے کہ اس کا اصلی ٹھکانا وہ جگہ ہے جہاں اس کے لیے قرار گاہ مقرر کیا گیا ہے وہ جہنم ہے۔

«هَاوِيَةٌ» ‏‏‏‏ جہنم کا نام ہے اسی لیے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ «ہاویہ» کیا ہے؟ اب میں بتاتا ہوں کہ وہ شعلے مارتی بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔

اشعث بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مومن کی موت کے بعد فرشے اس کی روح کو ایمانداروں کی روحوں کی طرف لے جاتے ہیں اور فرتے ان سے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کی دلجوئی اور تسکین کرو یہ دنیا کے رنج و غم میں مبتلا تھا، اب وہ نیک روحیں اس سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے؟ وہ کہتا ہے کہ وہ تو مر چکا تمہارے پاس نہیں آیا تو یہ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں پھونکو اسے وہ تو اپنی ماں «ہاویہ» میں پہنچا۔

ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں یہ بیان خوب سبط سے ہے اور ہم نے بھی اسے کتاب «صفتہ النار» میں وارد کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس آگ جہنم سے نجات دے، آمین!

پھر فرماتا ہے کہ وہ سخت تیز حرارت والی آگ ہے بڑے شعلے مارنے والی جھلسا دینے والی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تمہاری یہ آگ تو اس کا سترھواں حصہ ہے، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہلاکت کو تو یہی کافی ہے، آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن آتش دوزخ تو اس سے انہتر حصے تیز ہے ۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہر ایک حصہ اس آگ جیسا ہے ۔ [صحیح بخاری:3265] ‏‏‏‏ مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ [مسند احمد:467/2:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد کی ایک حدیث میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ یہ آگ باوجود اس آگ کا سترھواں حصہ ہونے کے پھر بھی دو مرتبہ سمندر کے پانی میں بجھا کر بھیجی گئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اس سے بھی نفع نہ اٹھا سکتے ۔ [مسند احمد:244/2:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے یہ آگ سوواں حصہ ہے ۔ [مسند احمد:379/2:اسنادہ قوی] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے جانتے ہو کہ تمہاری اس آگ اور جہنم کی آگ کے درمیان کیا نسبت ہے؟ تمہاری اس آگ کے دھوئیں سے بھی ستر حصہ زیادہ سیاہ خود وہ آگ ہے ۔ [طبرانی اوسط:489:صحیح] ‏‏‏‏

ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ جہنم کی آگ ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سرخ ہوئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سیاہ ہو گئی، پس وہ سخت سیاہ اور بالکل اندھیرے والی ہے ۔ [سنن ابن ماجہ:4320،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی وہ ہے، جس کے پیروں میں آگ کی دو جوتیاں ہوں گی، جس سے اس کا دماغ کھدبدا رہا ہو گا ۔ [مسند احمد:432/2:صحیح لغیرہ] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم میں ہے کہ آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے اللہ! میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جا رہا ہے تو پروردگار نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں، ایک گرمی میں، پس سخت جاڑا جو تم پاتے ہو اس کا سرد سانس ہے اور سخت گرمی جو پڑتی ہے یہ اس کے گرم سانس کا اثر ہے ۔ [صحیح بخاری:3657] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ جب گرمی شدت کی پڑے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو گرمی کی سختی جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے ۔ [صحیح بخاری:536] ‏‏‏‏

«الْحَمْدُ لِلَّـه» سورۃ القارعہ کی تفسیر ختم ہوئی۔