قرآن مجيد

سورة الضحى

تفسیر سورۃ الضحى:

اسماعیل بن قسطنطین اور شبل بن عباد رحمہا اللہ کے سامنے عکرمہ رحمہ اللہ تلاوت قرآن کر رہے تھے جب اس سورت تک پہنچے تو دونوں نے فرمایا کہ اب سے آخر تک ہر سورت کے خاتمہ پر اللہ اکبر کہا کرو۔ ہم نے ابن کثیر کے سامنے پڑھا تو انہوں نے ہمیں یہی فرمایا اور انہوں نے فرمایا کہ ہم سے مجاہد رحمہ اللہ نے یہ فرمایا ہے اور مجاہد رحمہ اللہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہی تعلیم تھی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا۔ [مستدرك حاكم:304/3،ضعيف‏‏‏‏ ]

امام القرأت ابوالحسن رحمہ اللہ بھی اسی سنت کے روای ہیں، ابو حاتم رازی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں اس لیے کہ ابوالحسن ضعیف ہیں، ابوحاتم تو ان سے حدیث ہی نہیں لیتے، اسی طرح ابوجعفر عقیلی رحمہ اللہ بھی انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں لیکن شیخ شہاب الدین ابوشامہ شرح شاطبیہ میں امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک شخص سے سنا کہ وہ نماز میں اس تکبیر کو کہتے تھے تو آپ نے فرمایا تو نے اچھا کیا اور سنت کو پہنچ گیا۔

یہ واقعہ تو اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو۔ پھر قاریوں میں اس بات کا بھی اختلاف ہے کہ کس جگہ یہ تکبیر پڑھے اور کس طرح پڑھے، بعض تو یہ کہتے ہیں «وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ» [ 92-اليل:1‏‏‏‏] کے خاتمہ پر اور بعض کہتے ہیں «والضحيٰ» کے آخر پر۔ پھر بعض تو کہتے ہیں صرف اللہ اکبر کہے بعض کہتے ہیں «الله اكبر لا اله الله والله اكبر» کہے، بعض قاریوں نے سورۃ والضحیٰ سے ان تکبیروں کے کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ جب وحی آنے میں دیر لگی اور کچھ مدت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نہ اتری پھر جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہی سورت لائے تو خوشی اور فرحت کے باعث آپ نے تکبیر کہی لیکن یہ کسی ایسی اسناد کے ساتھ مروی نہیں جس سے صحت و ضعف کا پتہ چل سکے۔ [قال الشيخ عبدالرزاق مهدي:لا اصل له] ‏‏‏‏ شیخ عبدالرزاق مہدی فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور مجھے اس کی کوئی سند بھی نہیں ملی۔ «والله اعلم»
وَالضُّحَى[1]
قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی![1]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5،

باب

صحیح البخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں ۔ [صحیح بخاری:1124] ‏‏‏‏

سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے «وَالضُّحَى» سے «وَمَا قَلَى» تک کی آیتیں اتاریں ۔ [صحیح مسلم:1797] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «هَلْ أَنْتِ إِلَّا أُصْبُع دَمِيتِ وَفِي سَبِيل اللَّه مَا لَقِيت؟» یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگا ہے۔ طبعیت کچھ ناساز ہو جانے کی وجہ سے دو تین رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ [صحیح بخاری:6146] ‏‏‏‏ کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کا زخمی ہونا، اور اس موزوں کلام کا بےساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے۔ لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے۔

ابن جریر میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے کہیں ناراض نہ ہو گیا ہو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37512:مرسل] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اس پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں ، یہ دونوں روایات مرسل ہیں اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ابن اسحاق اور بعض سلف رحمہ اللہ علیہم نے فرمایا ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہو گئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے دھوپ پڑنے کے وقت، دن کی روشنی، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے۔

جیسے اور جگہ ہے «وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ» [92-الليل:2-1] ‏‏‏‏ اور جگہ ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» [6-الأنعام:96] ‏‏‏‏، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ ” تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا، نہ تجھ سے دشمنی کی، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے “۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی۔

مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بورئیے پر سوئے، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑ گئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا اور کہا اے اللہ کے رسول! ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میں کہاں، دنیا کہاں؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے۔ [سنن ترمذي:2377،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرمایا ” تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ تو خوش ہو جائے، ان کی بڑی تکریم ہو گی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا۔ جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہو گی “۔ یہ حدیثیں عنقریب آ رہی ہیں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔

ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کر کے آپ کو بتا دئیے گئے۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہر ہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37513] ‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے روایت نہیں ہو سکتی۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے۔‏‏‏‏ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے۔