مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ» [56-الواقعة:74] اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تم اپنے رکوع میں کر لو“ جب «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» [87-الأعلى:1] اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے سجدے میں کر لو“ [سنن ابوداود:869،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ابوداؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» [87-الأعلى:1] پڑھتے تو کہتے «سُبْحَان رَبِّي الْأَعْلَى» [سنن ابوداود:883،قال الشيخ الألباني:صحیح] سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے۔
اور آپ جب «لَا أُقْسِم بِيَوْمِ الْقِيَامَة» [75-القيامة:1] پڑھتے اور آخری آیت «أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ» [75-القيامة:40] پر پہنچتے تو فرماتے «سُبْحَانك وَبَلَى» [75-القيامة:40]
اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے ” اپنے بلندیوں والے، پرورش کرنے والے، اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی، انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے “۔
جیسے اور جگہ ہے «رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ» [20-طه:50] یعنی ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی “۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا [سنن ترمذي:2134،قال الشيخ الألباني:صحیح] جس میں ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا ۔ [صحیح مسلم:2653]
بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں مؤخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا، گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں۔