اس سورت کے مکی ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں ہے، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن مکتوم رضی اللہ عنہ آئے ہمیں قرآن پڑھانا شروع کیا پھر سیدنا عمار، سیدنا بلال، سیدنا سعد رضی اللہ عنہم آئے پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ بیس صحابیوں کو لے کر آئے۔ میں نے اہل مدینہ کو کسی چیز پر اس قدر خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنے اس پر خوش ہوئے یہاں تک کہ چھوٹے بچے اور نابالغ لڑکے بھی پکار اٹھے کہ یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تشریف لائے آپ کے آنے سے پہلے ہی میں نے یہ سورت «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» [الاعلیٰ-1] اسی جیسی اور سورتوں کے ساتھ یاد کر لی تھی۔ [صحیح بخاری:4941]
مسند احمد میں ہے کہ یہ سورۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھی۔ [مسند احمد:96/1:ضعیف]
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تو نے سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» اور «والشمس وضحاہا» اور «والليل إذا يغشى» کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھائی۔ [صحیح بخاری:705]
مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» دونوں عیدوں کی نمازوں میں پڑھا کرتے تھے، اور جمعہ والے دن اگر عید ہوتی تو عید میں اور جمعہ میں دونوں میں انہی سورتوں کو پڑھتے۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے ابوداود اور ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ابن ماجہ وغیرہ میں بھی مروی ہے۔ [صحیح مسلم:878]
مسند احمد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وتر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل ياأيہا الكافرون» اور «قل ھو اللہ أحد» پڑھتے تھے، ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ سورۃ معوذتین یعنی «قل اعوذ برب الفلق» اور «قل اعوذ برب الناس» اور بھی پڑھتے تھے۔ [سنن ابوداود:1423،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ حدیث بھی بہت سے صحابیوں سے بہت سے طریق کے ساتھ مروی ہے ہمیں اگر کتاب کے طویل ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو ان سندوں کو اور ان تمام روایتوں کے الفاظ کو جہاں تک میسر ہوتے نقل کرتے لیکن جتنا کچھ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا یہ بھی کافی ہے۔ «واللہ اعلم»
مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ» [56-الواقعة:74] اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تم اپنے رکوع میں کر لو“ جب «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» [87-الأعلى:1] اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے سجدے میں کر لو“ [سنن ابوداود:869،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ابوداؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» [87-الأعلى:1] پڑھتے تو کہتے «سُبْحَان رَبِّي الْأَعْلَى» [سنن ابوداود:883،قال الشيخ الألباني:صحیح] سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے۔
اور آپ جب «لَا أُقْسِم بِيَوْمِ الْقِيَامَة» [75-القيامة:1] پڑھتے اور آخری آیت «أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ» [75-القيامة:40] پر پہنچتے تو فرماتے «سُبْحَانك وَبَلَى» [75-القيامة:40]
اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے ” اپنے بلندیوں والے، پرورش کرنے والے، اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی، انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے “۔
جیسے اور جگہ ہے «رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ» [20-طه:50] یعنی ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی “۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا [سنن ترمذي:2134،قال الشيخ الألباني:صحیح] جس میں ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا ۔ [صحیح مسلم:2653]
بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں مؤخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا، گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں۔