قرآن مجيد

سورة الطارق

تفسیر سورۃ الطارق:

مسند احمد میں ہے کہ خالد بن ابوحبل عدوانی رضی اللہ عنہ نے ثقیف قبیلے کی مشرق کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکڑی یا کمان پر ٹیک لگائے ہوئے اس پوری سورت کو پڑھتے سنا جبکہ آپ ان لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ سیدنا خالد نے اسے یاد کر لیا جب یہ ثقیف کے پاس واپس آئے تو ان سے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ بھی اس وقت مشرک تھے انہوں نے بیان کیا تو جتنے قریش وہاں تھے جلدی سے بول پڑے کہ اگر یہ حق ہوتا تو کیا اب تک ہم نہ مان لیتے [مسند احمد:335/4:ضعیف] ‏‏‏‏

نسائی میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے مغرب کی نماز میں سورۃ بقرہ یا سورۃ نساء پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟ کیا یہ تجھے کافی نہ تھا کہ «وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ» [86-الطارق:1] ‏‏‏‏ اور «وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا» [91-الشمس:1] ‏‏‏‏ اور ایسی ہی اور سورتیں پڑھ لیتا۔ [سنن نسائی:672،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ[1]
قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی![1]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8، 9، 10،

تخلیق انسان ٭٭

اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھاتا ہے «طارق» کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں۔

ایک صحیح حدیث میں ہے کہ «نَهَى أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ طُرُوقًا» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بے خبر آ جائے ۔ [صحیح بخاری:1801] ‏‏‏‏ یہاں بھی لفظ «طُرُوقً» ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا «إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ» میں بھی «طَارِقً» کا لفظ آیا ہے۔ [مسند احمد:419/3:حسن] ‏‏‏‏

«ثَّاقِبُ» کہتے ہیں چمکیلے اور روشن ستارے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے، ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے۔

جیسے اور جگہ ہے «لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ» [13-الرعد:11] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں “۔

انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہو گا۔

جیسے فرمایا «وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ» [30-الروم:27] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے “۔

انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت، مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے، عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے۔

«تَّرَائِبُ» کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے، دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے، سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے۔

اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے ۔ [صحیح بخاری:6178] ‏‏‏‏

اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہو گی نہ اس کا کوئی مددگار کوئی اور کھڑا ہو گا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہو گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔