جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار ہیں، گناہوں سے دور رہتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ انہیں «ابرار» اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے ۔ [سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:3221]
بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے، قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہو گا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہو گا، نہ موت آئے گی، نہ راحت ملے گی، نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا، نہ عذاب سے نجات دلوا سکے گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود ہی اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے۔
اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنو ہاشم! اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کر لو میں تمہیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا“۔ [صحیح مسلم:204] یہ حدیث سورۃ الشعراء کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔
یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہو گا۔
جیسے اور جگہ ہے «لِمَنِ المُلكُ اليَومَ لِلَّهِ الواحِدِ القَهّارِ» [40-غافر:16]
اور جگہ ارشاد ہے «الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ» [25-الفرقان:26]
اور فرمایا «مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ» [1-الفاتحة:4]
مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد و قہار و رحمن کی ہی ہو گی، گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت، ملکیت اور امر والا بھی نہ ہو گا۔
سورۃ انفطار کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»