قرآن مجيد

سورة التكوير
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ[29]
اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔[29]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25، 26، 27، 28، 29،

باب

مطلب یہ ہے کہ فرشتوں میں سے جو اس رسالت پر مقرر ہیں وہ بھی پاک صاف ہیں اور انسانوں میں جو رسول مقرر ہیں وہ بھی پاک اور برتر ہیں۔

اس لیے اس کے بعد فرمایا، ” تمہارے ساتھی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیوانے نہیں، یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہوئے تھے “۔ یہ واقعہ بطحاء کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ دیکھنا تھا آسمان کے کھلے کناروں پر یہ دیدار جبرائیل علیہ السلام حاصل ہوا تھا، اسی کا بیان اس آیت میں ہے «عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ» [53-النجم:10-5] ‏‏‏‏ یعنی ” انہیں ایک فرشتہ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے قوی ہے، جو اصلی صورت پر آسمان کے بلند و بالا کناروں پر ظاہر ہوا تھا پھر وہ نزدیک آیا اور بہت قریب آ گیا صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم پھر جو وحی اللہ نے اپنے بندے پر نازل کرنی چاہی نازل فرمائی “۔ اس آیت کی تفسیر سورۃ النجم میں گزر چکی ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت معراج سے پہلے اتری ہے اس لیے کہ اس میں صرف پہلی مرتبہ کا دیکھنا ذکر ہوا ہے اور دوبارہ کا دیکھنا اس آیت میں مذکور ہے «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ» [53-النجم:16-13] ‏‏‏‏ یعنی ” انہوں نے اس کو ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ہے جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔ جبکہ اس درخت سدرہ کو ایک عجیب و غریب چیز چھپائے ہوئی تھی “۔ اس آیت میں دوسری مرتبہ کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ یہ سورت واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی تھی۔

«‏‏‏‏بِضَنِينٍ» کی دوسری قرأت «بِـظَنِـیْنٍ» بھی مروی ہے۔ یعنی ان پر کوئی تہمت نہیں، اور «ضاد» سے جب پڑھو تو معنی ہوں گے یہ بخیل نہیں ہیں، بلکہ ہر شخص کو جو غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے معلوم کرائی جاتی ہیں یہ سکھا دیا کرتے ہیں یہ دونوں قراءتیں مشہور ہیں، اور صحیح ہیں۔

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو تبلیغ احکام میں کمی کی، نہ تہمت لگی، یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں، نہ شیطان اسے لے سکے، نہ اس کے مطلب کی یہ چیز، نہ اس کے قابل۔

جیسے اور جگہ ہے «وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ» [26-الشعراء:210-212] ‏‏‏‏ ” نہ اسے لے کر شیطان اترے نہ انہیں یہ لائق ہے نہ اس کی انہیں طاقت ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی محروم اور دور ہے “۔

پھر فرمایا ” تم کہاں جا رہے ہو؟ “ یعنی قرآن کی حقانیت اس کی صداقت ظاہر ہو چکنے کے بعد بھی تم کیوں اسے جھٹلا رہے ہو؟ تمہاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب بنو حنفیہ قبیلے کے لوگ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا مسلمیہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا ہے جسے تم آج تک مانتے رہے اس نے جو کلام گھڑ رکھا ہے ذرا اسے تو سناؤ۔‏‏‏‏ جب انہوں نے سنایا تو دیکھا کہ نہایت رکیک الفاظ ہیں بلکہ بکواس محض ہے تو، آپ نے فرمایا تمہاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟ ذرا تو سوچو کہ ایک فضول بکواس کو تم کلام اللہ جانتے رہے ناممکن ہے کہ ایسا بے معنی اور بے نور کلام اللہ کا کلام ہو۔‏‏‏‏

یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ تم کتاب اللہ سے اور اطاعت اللہ سے کہاں بھاگ رہے ہو؟ پھر فرمایا ” یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پند و نصیحت ہے “۔

ہر ایک ہدایت کے طالب کو چاہیئے کہ اس قرآن کا عامل بن جائے یہی نجات اور ہدایت کا کفیل ہے، اس کے سوا دوسرے کلام میں ہدایت نہیں، تمہاری چاہتیں کام نہیں آتیں کہ جو چاہے گمراہ ہو جائے بلکہ یہ سب کچھ منجانب اللہ ہے وہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اسی کی چاہت چلتی ہے، اس سے اگلی آیت کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ پھر تو ہدایت و ضلالت ہمارے بس کی بات ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری۔

سورۃ التکویر کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالحمداللہ»