قرآن مجيد

سورة النازعات
فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى[34]
پھر جب وہ ہر چیز پر چھاجانے والی سب سے بڑی مصیبت آجائے گی ۔[34]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 34، 35، 36، 37،

انتہائی ہولناک لرزہ خیز لمحات ٭٭

«طَّامَّةُ الْكُبْرَىٰ» سے مراد قیامت کا دن ہے اس لیے کہ وہ ہولناک اور بڑے ہنگامے والا دن ہو گا۔

جیسے اور جگہ ہے «وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ» ‏‏‏‏ [54-القمر:46] ‏‏‏‏ یعنی ” قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے “، اس دن ابن آدم اپنے بھلے برے اعمال کو یاد کرے گا اور کافی نصیحت حاصل کر لے گا۔

جیسے اور جگہ ہے «يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى» ‏‏‏‏ [89-الفجر:23] ‏‏‏‏ یعنی ” اس دن آدمی نصیحت حاصل کر لے گا لیکن آج کی نصیحت اسے کچھ فائدہ نہ دے گی، لوگوں کے سامنے جہنم لائی جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے “۔