قرآن مجيد

سورة النبأ
لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا[24]
نہ اس میں کوئی ٹھنڈ چکھیں گے اور نہ کوئی پینے کی چیز۔[24]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25، 26، 27، 28، 29، 30،

باب

پھر فرماتا ہے ” سرکش، نافرمان، مخالفین رسول کی تاک میں جہنم لگی ہوئی ہے ان کے لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ ہے “۔ اس کے معنی حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے یہ بھی کیے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں بھی نہیں جا سکتا، جب تک جہنم پر سے نہ گزرے، اگر اعمال ٹھیک ہیں تو نجات پا لی اور اگر اعمال بد ہیں تو روک لیا گیا اور جہنم میں جھونک دیا گیا۔‏‏‏‏ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس پر تین تین پل ہیں۔‏‏‏‏ پھر فرمایا ” وہ اس میں مدتوں اور قرنوں پڑے رہیں گے “۔

«أَحْقَابًا» جمع ہے «حُقْبٍ» کی ایک لمبے زمانے کو «حُقْبٍ» کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں «حُقْبٍ» اسی سال کا ہوتا ہے سال بارہ ماہ کا۔ مہینہ تیس دن اور ہر دن ایک ہزار سال کا، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے یہ مروی ہے۔ بعض کہتے ہیں ستر سال کا «حُقْبٍ» ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے چالیس سال کا ہے، جس میں ہر دن ایک ہزار سال کا۔

بشیر بن کعب رحمہ اللہ تو کہتے ہیں ایک ایک دن اتنا بڑا اور ایسے تین سو ساٹھ سال کا ایک «حُقْبٍ» ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے «حُقْبٍ» مہینہ کا، مہینہ تیس دن کا، سال بارہ مہینوں کا، سال کے دن تین سو ساٹھ ہر دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ۔ [طبرانی کبیر:7957:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث سخت منکر ہے اس کے راوی قاسم جو جابر بن زبیر کے لڑکے ہیں، یہ دونوں متروک ہیں۔

ایک اور روایت میں ہے کہ ابوعلاء سلیمان بن مسلم نے سلیمان تیمی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی؟ تو جواب دیا کہ میں نے نافع سے انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم جہنم میں سے کوئی بھی بغیر مدت دراز رہے نہ نکلے گا پھر کہا «حُقْبٍہ» اسی سے اوپر کچھ سال کا ہوتا ہے اور ہر سال تین سو ساٹھ دن کا جو تم گنتے ہو۔ [مسند بزار:5303:موضوع و باطل] ‏‏‏‏

سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں سات سو «حقب» رہیں گے ہر «حقب» ستر سال کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا اور ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر کا۔‏‏‏‏

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت «فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا» [78-النبأ:30] ‏‏‏‏ کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے۔‏‏‏‏ خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اور آیت «‏‏‏‏إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ» [11-ھود:107] ‏‏‏‏ یعنی ” جہنمی جب تک اللہ چاہے جہنم میں رہیں گے “، یہ دونوں آیتیں توحید والوں کے بارے میں ہیں۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ «احقاب» تک رہنا متعلق ہو آیت «إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا» [78-النبإ:25] ‏‏‏‏ کے ساتھ یعنی ” وہ ایک ہی عذاب گرم پانی اور بہتی پیپ کا مدتوں رہے گا “، پھر دوسری قسم کا عذاب شروع ہو گا لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں۔

حسن سے جب یہ سوال ہوا تو کہا کہ «أَحْقَابً» سے مراد ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے لیکن «حقب» کہتے ہیں ستر سال کو جس کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہوتا ہے۔‏‏‏‏

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ «أَحْقَابً» کبھی ختم نہیں ہوتے ایک «حقب» ختم ہوا دوسرا شروع ہو گیا ان «أَحْقَابً» کی صحیح مدت کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، ہاں یہ ہم نے سنا ہے کہ ایک «حقب» اسی سال کا، ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کا، ان دوزخیوں کو نہ تو کلیجے کی ٹھنڈک ہو گی نہ کوئی اچھا پانی ملے گا، ہاں ٹھنڈک کے بدلے گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا اور کھانے پینے کی چیز بہتی ہوئی پیپ ملے گی۔

«حَمِيمً» اس سخت گرم کو کہتے ہیں جس کے بعد حرارت کا کوئی درجہ نہ ہو، اور «غَسَّاقً» کہتے ہیں جہنمی لوگوں کے لہو، پیپ، پسینہ، آنسو اور زخموں سے بہے ہوئے خون، پیپ وغیرہ کو، اس گرم چیز کے مقابلہ میں یہ اس قدر سرد ہو گی جو بجائے خود عذاب ہے اور بے حد بدبودار ہے۔

سورۃ ص میں «غَسَّاقً» کی پوری تفسیر بیان ہو چکی ہے اب یہاں دوبارہ اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے ہر عذاب سے بچائے۔

بعض نے کہا ہے «بَرْدً» سے مراد نیند ہے، عرب شاعروں کے شعروں میں بھی «بَرْدً» نیند کے معنی میں پایا جاتا ہے۔

پھر فرمایا ” یہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے “، ان کی بد اعمالیاں بھی تو دیکھو کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حساب کا کوئی دن آنے ہی کا نہیں، ہم نے جو جو دلیلیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی تھیں یہ ان سب کو جھٹلاتے تھے۔

«كِذَّابًا» مصدر ہے اس وزن پر اور مصدر بھی آتے ہیں، پھر فرمایا کہ ” ہم نے اپنے بندوں کے تمام اعمال و افعال کو گن رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے وہ سب ہمارے پاس لکھے ہوئے ہیں اور سب کا بدلہ بھی ہمارے پاس تیار ہے “۔

ان اہل جہنم سے کہا جائے گا کہ ” اب ان عذابوں کا مزہ چکھو، ایسے ہی اور اس سے بھی بدترین عذاب تمہیں بکثرت ہوتے رہیں گے “۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دوزخیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں، ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے۔‏‏‏‏ سیدنا ابوبردہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ دوزخیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت آیت کونسی ہے؟ تو فرمایا نبی علیہ السلام نے اس آیت «فَذُوقُوا فَلَن نَّزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا» [78-النبأ:30] ‏‏‏‏ کو پڑھ کر فرمایا: ان لوگوں کو اللہ کی نافرمانیوں نے تباہ کر دیا، لیکن اس حدیث کے راوی جسر بن فرقد بالکل ضعیف ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:11/30:ضعیف] ‏‏‏‏