قرآن مجيد

سورة المرسلات
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ[28]
اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔[28]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18، 19، 20، 21، 22، 23، 24، 25، 26، 27، 28،

حسرت و افسوس کا وقت آنے سے پہلے ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” تم سے پہلے بھی جن لوگوں نے میرے رسولوں کی رسالت کو جھٹلایا میں نے انہیں نیست و نابود کر دیا پھر ان کے بعد اور لوگ آئے انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور ہم نے بھی انہیں اسی طرح غارت کر دیا ہم مجرموں کی غفلت کا یہی بدلہ دیتے چلے آئے ہیں، اس دن ان جھٹلانے والوں کی درگت ہو گی “۔

پھر اپنی مخلوق کو اپنا احسان یاد دلاتا ہے اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل پیش کرتا ہے کہ ” ہم نے اسے حقیر اور ذلیل قطرے سے پیدا کیا جو خالق کائنات کی قدرت کے سامنے ناچیز محض تھا “، جیسے سورۃ یس کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ ” اے ابن آدم بھلا تو مجھے کیا عاجز کر سکے گا میں نے تو تجھے اسی جیسی چیز سے پیدا کیا ہے، پھر اس قطرے کو ہم نے رحم میں جمع کیا جو اس پانی کے جمع ہونے کی جگہ ہے اسے بڑھاتا ہے اور محفوظ رکھتا ہے، مدت مقررہ تک وہ وہیں رہا یعنی چھ مہینے یا نو مہینے، ہمارے اس اندازے کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور بہترین ہے، پھر بھی اگر تم اس آنے والے دن کو نہ مانو گے تو یقین جانو کہ تمہیں قیامت کے دن بڑی حسرت اور سخت افسوس ہو گا “۔

پھر فرمایا ” کیا ہم نے زمین کو یہ خدمت سپرد نہیں کی؟ کہ وہ تمہیں زندگی میں بھی اپنی پیٹھ پر چلاتی رہے اور موت کے بعد بھی تمہیں اپنے پیٹ میں چھپا رکھے، پھر زمین کے نہ ہلنے جلنے کے لیے ہم نے مضبوط وزنی بلند پہاڑ اس میں گاڑ دیئے اور بادلوں سے برستا ہوا اور چشموں سے رستا ہوا ہلکا زود ہضم، خوش گوار پانی ہم نے تمہیں پلایا، ان نعمتوں کے باوجود بھی اگر تم میری باتوں کو جھٹلاتے ہی رہے تو یاد رکھو وہ وقت آ رہا ہے جب حسرت و افسوس کرو گے اور کچھ کام نہ آئے “۔