قرآن مجيد

سورة النساء
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا[64]
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگریہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔[64]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 64، 65،

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ضامن نجات ہے ٭٭

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «باذن اللہ» سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے، جیسے اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ» [3-آل عمران:152] ‏‏‏‏ یہاں بھی «اذن» سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا۔

پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطا کاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیئے اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیئے کہ آپ ہمارے لیے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔

ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھے «‏‏‏‏باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ» «‏‏‏‏فطاب من طیبھن القاع والا کم» «‏‏‏‏نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ» «‏‏‏‏فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم»

جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں، اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے۔

پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوشخبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے (‏‏‏‏یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے) بلکہ آیت کا یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ «جَاءُوكَ» کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ” ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے “ [صحیح مسلم:1631] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏مترجم)

پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ بنا دے۔ غرض جو بھی ظاہر باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے۔

پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کر لیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں ہٹانے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں ۔ [فتح الباری:289/13،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زبیر (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ) تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا ہے فرمایا زبیر (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ) تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو۔

پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ «‏‏‏‏فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ» ‏‏‏‏ [4-النساء:65] ‏‏‏‏ اسی بارے میں نازل ہوئی ہے،

مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری رضی اللہ عنہ بدری تھے [صحیح بخاری:2708] ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی روکو مت یونہی پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے۔ [صحیح بخاری:2359] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5559/3:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے آپ نے فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیجئیے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے سارا ہی واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہہ سنایا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تلوار تانے آ گئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیجئیے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بری کر دیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہو جائے اس لیے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری «وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ» [4-النساء:66] ‏‏‏‏ جو آگے آتی ہے۔ (‏‏‏‏ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے؟ کہا یہ کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا۔ [مسند الفاروق:575/2:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏تفسیر حافظ ابواسحاق)