اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔[57]
اللہ کی آیتوں کے نہ ماننے اور رسولوں سے لوگوں کو برگشتہ کرنے والوں کی سزا اور ان کے بد انجام کا ذکر ہورہا ہے انہیں اس آگ میں دھکیلا جائے گا جو انہیں چاروں طرف سے گھیرلے گی اور ان کے روم روم کو سلگا دے اور یہی نہیں بلکہ یہ عذاب دائمی ایسا ہو گا ایک چمڑا جل گیا تو دوسرا بدل دیا جائے گا جو سفید کاغذ کی مثال ہو گا ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی ہر ہر کھال پر قسم قسم کے علیحدہ علیحدہ عذاب ہوں گے ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھال الٹ پلٹ ہو گی۔ یعنی کہدیا جائے گا کہ جلد لوٹ آئے وہ پھر لوٹ آئے گی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ پڑھنے والے سے دوبارہ سنانے کی فرمائش کرتے وہ دوبارہ پڑھتا تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں آپ کو اس کی تفسیر سناؤں ” ایک ایک ساعت میں سو سو بار بدلی جائے گی اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے “ [تفسیر ابن ابی حاتم:5493/3:ضعیف و باطل]
دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر یاد ہے میں نے وہ اسلام لانے سے پہلے پڑھی تھی آپ نے فرمایا اچھا بیان کرو اگر وہ وہی ہوئی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو ہم اسے قبول کریں گے ورنہ ہم اسے قابل التفات نہ سمجھیں گے تو آپ نے فرمایا ” ایک ساعت میں ایک سو بیس مرتبہ اس پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے “ [الدر المنثور للسیوطی:311/2:ضعیف]
سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان کی کھالیں چالیس ہاتھ یا چھہتر ہاتھ ہوں گی اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اگر ان میں پہاڑ رکھا جائے تو سما جائے۔ جب ان کھالوں کو آگ کھا لے گی تو اور کھالیں آ جائیں گی۔
ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ مسند احمد میں ہے ” جہنمی جہنم میں اس قدر بڑے بڑے بنا دیئے جائیں گے کہ ان کے کان کی نوک سے کندھا سات سو سال کی راہ پر ہو گا اور ان کی کھال کی موٹائی ستر ذراع ہو گی اور کچلی مثل احد پہاڑ کے ہوں گی۔“ [مسند احمد:25/2،قال الشيخ الألباني:ضعیف] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد کھال سے لباس ہے لیکن یہ ضعیف ہے اور ظاہر لفظ کے خلاف ہے
پھر نیک لوگوں کا بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جنت عدن میں ہوں گے جس کے چپے چپے پر نہریں جاری ہوں گی جہاں چاہیں انہیں لے جائیں اپنے محلات میں باغات میں راستوں میں غرض جہاں ان کے جی چاہیں وہیں وہ پاک نہریں بہنے لگیں گی، پھر سب سے اعلیٰ لطف یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی نہ انہیں زوال آئے گا، نہ ان میں کمی ہوگی، نہ واپس لی جائیں گی، نہ فنا ہونگی، نہ سڑیں نہ بگڑیں، نہ خراب ہونگی، نہ ختم ہوں گی۔
پھر ان کے لیے وہاں حیض و نفاس سے گندگی اور پلیدی سے، میل کچیل اور بو باس سے، رذیل صفتوں اور بے ہودہ اخلاق سے پاک بیویاں ہوں گی اور گھنے لمبے چوڑے سائے ہوں گے جو بہت فرحت بخش بہت ہی سرور انگیز راحت افزا دل خوش کن ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے ایک سو سال تک بھی ایک سوار چلا جائے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو یہ شجرۃ الخلد ہے۔ “ [تفسیر ابن جریر الطبری:9843]