بزار میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قریش دارالندوہ میں جمع ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ آؤ مل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا نام تجویز کریں کہ سب کی زبان سے وہی نکلے تاکہ باہر کے لوگ ایک ہی آواز سن کر جانیں، تو بعض نے کہا ان کا نام کاہن رکھو اس پر اوروں نے کہا درحقیقت وہ کاہن تو نہیں، کہا اچھا پھر ان کا نام مجنون رکھو اس پر بھی اوروں نے کہا کہ وہ مجنون بھی نہیں، پھر بعض نے کہا ساحر نام رکھو اس پر اور لوگوں نے کہا وہ ساحر یعنی جادوگر بھی نہیں، غرض وہ کوئی ایسا نام تجویز نہ کر سکے جس پر سب کا اتفاق ہو اور یہ مجمع یوں ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر منہ لپیٹ کر کپڑا اوڑھ کر لیٹ رہے جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور اسی طرح یعنی اے منہ لپیٹ کر کپڑا اوڑھنے والے کہہ کر آپ کو مخاطب کیا، [مسند بزار:2276:ضعیف] اس روایت کے ایک راوی معلی بن عبدالرحمٰن سے گو اہل علم کی جماعت روایت لیتی ہے اور اس سے حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن ان کی روایتوں میں بہت سی ایسی حدیثیں بھی ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی جاتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کر لیں، جیسے فرمان ہے «تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ» [32-السجدة:16] ، یعنی ” ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» [17-الإسراء:79] ، یعنی ” راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے۔ “ یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش۔
باب
«مُزَّمِّلُ» کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے۔ “
اس حکم کے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی۔ [صحیح بخاری:733]
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر سنائی جس میں لفظ «الله» پر لفظ «رحمن» پر لفظ «رحیم» پر مد کیا۔ [صحیح بخاری:5046]
ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» پڑھ کر ٹھہرتے۔ یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ [سنن ترمذي:2927،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو۔ یہ حدیث ابوداؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ [سنن ابوداود:1464،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو [سنن ابوداود:1468،قال الشيخ الألباني:صحیح] ، اور ہم میں سے وہ نہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے [صحیح بخاری:2527] اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے [صحیح بخاری:5048] اور ابوموسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا۔“ [صحیح مسلم:793]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو۔ [بغوی]
ایک شخص آ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہو گا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لیے کہ ان میں سے دو دو سورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ [صحیح بخاری:775]
پھر فرماتا ہے ” ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے۔ “ یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ [صحیح بخاری:4592]
مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہو جاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی۔“ [مسند احمد:222/2:ضعیف]
صحیح بخاری کے شروع میں ہے حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ”یا رسول اللہ! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گنگناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر چکتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے۔ [صحیح بخاری:4592]
مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی۔ [مسند احمد:118/6:صحیح]
ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا، نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/29:مرسل] مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بوجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا ہے۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔
رات کا اٹھنا نفس کی درستگی ٭٭
پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لیے اور زبان کو درست کرنے کے لیے اکسیر ہے، «نشاء» کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں، رات بھر میں جب اٹھے اسے «نَاشِئَتةَ الَّلیَلِ» کہتے ہیں، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بہ نسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا، شورغل کا، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے آیت «أَقْوَمُ قِيلًا» [73-المزمل:6] کو «اَصْوَبُ قِیْلًا» پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو «أَقْوَمُ» پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا «اَصْوَبُ اَقُوَمُ اَھْیَأ» اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔