قرآن مجيد

سورة الملك
أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ[20]
یا کون ہے وہ جو تمھارا لشکر ہو، تمھاری مدد کرے، رحمان کے مقابلے میں؟ کافر دھوکے کے سوا کسی کھاتے میں نہیں ہیں۔[20]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 20، 21، 22، 23، 24، 25، 26، 27،

رزاق صرف رب قدیر ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس عقیدے کی تردید کر رہا ہے جو وہ خیال رکھتے تھے کہ جن بزرگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد کر سکتے ہیں اور انہیں روزیاں پہنچا سکتے ہیں فرماتا ہے کہ ” سوائے اللہ کے نہ تو کوئی مدد دے سکتا ہے، نہ روزی پہنچا سکتا ہے، نہ بچا سکتا ہے، کافروں کا یہ عقیدہ محض ایک دھوکہ ہے “۔

اگر اب اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری روزیاں روک لے تو پھر کوئی بھی انہیں جاری نہیں کر سکتا، دینے لینے پر، پیدا کرنے اور فنا کرنے پر، رزق دینے اور مدد کرنے پر صرف اللہ عزوجل «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کو ہی قدرت ہے۔ یہ لوگ خود اسے دل سے جانتے ہیں، تاہم اعمال میں اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار اپنی گمراہی، کج روی، گناہ اور سرکشی میں بہے چلے جاتے ہیں ان کی طبیعتوں میں ضد، تکبر اور حق سے انکار بلکہ حق کی عداوت بیٹھ چکی ہے، یہاں تک کہ پہلی باتوں کا سننا بھی انہیں گوارا نہیں عمل کرنا تو کہاں؟

پھر مومن و کافر کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ” کافر کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص کمر کبڑی کر کے سر جھکائے نظریں نیچی کئے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیکھتا ہے، نہ اسے معلوم ہے کہ کہاں جا رہا ہے بلکہ حیران، پریشان، راہ بھولا اور ہکا بکا ہے۔ اور مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سیدھی راہ پر، سیدھا کھڑا ہوا چل رہا ہے، راستہ خود صاف اور بالکل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے چل رہا ہے، یہی حال ان کا قیامت کے دن ہو گا کہ کافر تو اوندھے منہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اور مسلمان عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے “۔

جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ» [37-الصافات:23،22] ‏‏‏‏ الخ، ” ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا تھے جمع کر کے جہنم کا راستہ دکھا دو “۔

مجرموں کا منہ کے بل چلایا جانا ٭٭

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ منہ کے بل چل کر کس طرح حشر کئے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے انہیں اپنے پیروں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ [صحیح بخاری:4760] ‏‏‏‏

اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ جب کہ تم کچھ نہ تھے پیدا کیا تمہیں کان آنکھ اور دل دیئے یعنی عقل و ادراک تم میں پیدا کیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو یعنی اپنی ان قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی حکم برداری میں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں بہت ہی کم خرچ کرتے ہو۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر پھیلا دیا، تمہاری زبانیں جدا، تمہارے رنگ روپ جدا، تمہاری شکلوں صورتوں میں اختلاف۔ اور تم زمین کے چپہ چپہ پر بسا دیئے گئے، پھر اس پراگندگی اور بکھرنے کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ تم سب اس کے سامنے لا کر کھڑے کر دیئے جاؤ گے اس نے جس طرح تمہیں ادھر ادھر پھیلا دیا ہے، اسی طرح ایک طرف سمیٹ لے گا اور جس طرح اولاً اس نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ تمہیں لوٹائے گا۔

دوبارہ بٹھایا جانا ٭٭

پھر بیان ہوتا ہے کہ ” کافر مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو، تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا؟ “

اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ” ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے، ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں، میرا فرض صرف تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا “۔

پھر ارشاد باری ہوتا ہے کہ ” جب قیامت قائم ہونے لگے گی اور کفار اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اب وہ قریب آ گئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے، گو دیر سویر سے آئے، جب اسے آیا ہوا پا لیں گے، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھنے لگیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی، آثار سب سامنے ہوں گے “، اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے ” جس کی تم جلدی مچا رہے تھے “۔