قرآن مجيد

سورة الملك
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ[5]
اور بلاشبہ یقینا ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔[5]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 5،

باب

تو فرمایا ” آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں “۔

پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ” ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں “ یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

شیاطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لیے جلانے والا عذاب ہے۔ جیسے سورۃ صافات کے شروع میں ہے کہ «إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍ لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ» [37-الصافات:6-10] ‏‏‏‏ ” ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے، وہ بلند و بالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کر لے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے “۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، آسمان کی زینت، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کے تکلف کیا۔‏‏‏‏ [ابن جریر اور ابن ابی حاتم] ‏‏‏‏