اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف توبہ کرو، خالص توبہ، تمھارا رب قریب ہے کہ تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہا ہو گا، وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، یقینا تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔[8]
سلف فرماتے ہیں ”توبہ خالص یہ ہے کہ گناہ کو اس وقت چھوڑ دے، جو ہو چکا ہے اس پر نادم ہو اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر گناہ میں کسی انسان کا حق ہے تو چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ حق باقاعدہ ادا کر دے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”نادم ہونا بھی توبہ کرنا ہے“۔ [مسند احمد:33/1:صحیح]
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ہمیں کہا گیا تھا کہ اس امت کے آخری لوگ قیامت کے قریب کیا کیا کام کریں گے؟ ان میں ایک یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی یا لونڈی سے اس کے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرے گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق حرام کر دیا ہے اور جس فعل پر اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی ہوتی ہے، اسی طرح مرد مرد سے بدفعلی کریں گے جو حرام اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے، ان لوگوں کی نماز بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں جب تک کہ یہ «توبتہ النصوح» نہ کریں۔“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا «توبتہ النصوح» کیا ہے؟ فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصور سے گناہ ہو گیا، پھر اس پر نادم ہونا، اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا اور پھر اس گناہ کی طرف مائل نہ ہونا۔“
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «توبتہ النصوح» یہ ہے کہ جیسے گناہ کی محبت تھی ویسا ہی بغض دل میں بیٹھ جائے اور جب وہ گناہ یاد آئے اس سے استغفار ہو، جب کوئی شخص توبہ کرنے پر پختگی کر لیتا ہے اور اپنی توبہ پر جما رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام اگلی خطائیں مٹا دیتا ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کی تمام برائیاں اسلام فنا کر دیتا ہے اور توبہ سے پہلے کی تمام خطائیں توبہ سوخت کر دیتی ہے ۔ [صحیح مسلم:121]
اب رہی یہ بات کہ «توبتہ النصوح» میں یہ شرط بھی ہے کہ توبہ کرنے والا پھر مرتے دم تک یہ گناہ نہ کرے۔ جیسے کہ احادیث و آثار ابھی بیان ہوئے جن میں ہے کہ پھر کبھی نہ کرے، یا صرف اس کا عزم راسخ کافی ہے کہ اسے اب کبھی نہ کروں گا گو پھر بہ متضائے بشریت بھولے چوکے ہو جائے، جیسے کہ ابھی حدیث گزری کہ توبہ اپنے سے پہلے گناہوں کو بالکل مٹا دیتی ہے، تو تنہا توبہ کے ساتھ ہی گناہ معاف ہو جاتے ہیں یا پھر مرتے دم تک اس کام کا نہ ہونا گناہ کی معافی کی شرط کے طور پر ہے؟
پس پہلی بات کی دلیل تو یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص اسلام میں نیکیاں کرے وہ اپنی جاہلیت کی برائیوں پر پکڑا نہ جائے گا اور جو اسلام لا کر بھی برائیوں میں مبتلا رہے وہ اسلام اور جاہلیت کی دونوں برائیوں میں پکڑا جائے گا ۔ [صحیح بخاری:6921]
پس اسلام جو کہ گناہوں کو دور کرنے میں توبہ سے بڑھ کر ہے، جب اس کے بعد بھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے پہلی برائیوں میں بھی پکڑ ہوئی، تو توبہ کے بعد بطور اولیٰ ہونی چاہیئے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
لفظ «عَسٰی» گو تمنا، امید اور امکان کے معنی دیتا ہے لیکن کلام اللہ میں اس کے معنی تحقیق کے ہوتے ہیں پس فرمان ہے کہ خالص توبہ کرنے والے قطعاً اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں گے اور سرسبز و شاداب جنتوں میں آئیں گے۔
پھر ارشاد ہے ” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو ہرگز شرمندہ نہ کرے گا، انہیں اللہ کی طرف سے نور عطا ہو گا جو ان کے آگے آگے اور دائیں طرف ہو گا، اور سب اندھیروں میں ہوں گے اور یہ روشنی میں ہوں گے “، جیسے کہ پہلے سورۃ الحدید کی تفسیر میں گزر چکا، جب یہ دیکھیں گے کہ منافقوں کو جو روشنی ملی تھی عین ضرورت کے وقت وہ ان سے چھین لی گئی اور وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے تو دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو ہماری روشنی تو آخر وقت تک ہمارے ساتھ ہی رہے ہمارا نور ایمان بجھنے نہ پائے۔
بنو کنانہ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فتح مکہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سنا ” «الَّلهُمَّ لاَ تُخْزِنِيْ يَوْمَ الْقِيَامَة» میرے اللہ! مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا“۔ [مسند احمد:234/4:صحیح]
ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”قیامت کے دن سب سے پہلے سجدے کی اجازت مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کی اجازت بھی مجھ ہی کو مرحمت ہو گی میں اپنے سامنے اور دائیں بائیں نظریں ڈال کر اپنی امت کو پہچان لوں گا“ ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ انہیں کیسے پہچانیں گے؟ وہاں تو بہت سی امتیں مخلوط ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے لوگوں کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان کے اعضاء وضو منور ہوں گے، چمک رہے ہوں گے کسی اور امت میں یہ بات نہ ہو گی دوسری پہچان یہ ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے، تیسری نشانی یہ ہو گی کہ سجدے کے نشان ان کی پیشانیوں پر ہوں گے جن سے میں پہچان لوں گا چوتھی علامت یہ ہے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے ہو گا“۔ [مسند احمد:199/5:ضعیف]