سورۃ الحدید میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی، پھر صبر و تحمل سے کام لے، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے، رضا بہ قضاء کے سوا لب نہ ہلائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ”اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا۔“
آسان ترین افضل عمل ٭٭
سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ آیت «مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ» [64-التغابن-11] پڑھی جاتی ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں ”اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے۔“ یہ بھی مطلب ہے کہ ”وہ «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» [2-البقرہ:156] پڑھ لے۔“
متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لیے بہتری ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لیتا ہے، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں ۔ [صحیح مسلم:2999]
مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ اس نے کہا یا رسول اللہ! میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر، اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے“۔ [مسند احمد:318/5:ضعیف]
پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ ” امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سر منہ تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ، جس سے روکا جائے رک جاؤ، اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بوجھ نہیں، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کر چکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی “۔
پھر فرمان ہے کہ ” اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں “، یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو۔
پھر فرماتا ہے ” چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو “۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا» [73-المزمل:9] ” مشرق اور مغرب کا رب وہی ہے، معبود حقیقی بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا لے “۔