ان پر برابر ہے کہ تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرے، یا ان کے لیے بخشش کی دعا نہ کرے، اللہ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، بے شک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔[6]
سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہو جاتا تھا اور کہتا، تھا لوگو! یہ ہیں اللہ کے رسول جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔
احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع الخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ادھر ادھر سے کھڑے ہو گئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے، دشمن اللہ بیٹھ جا، تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا، تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں، اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے۔
یہ ناراض ہو کر لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لیے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین مجھ پر اچھل کر آ گئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لیے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ [سیرۃ ابن ہشام:69/3:مرسل]
قتادہ رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:34160:مرسل]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں، غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا۔
اسے کہا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا۔
کتب سیر و مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چنانچہ اس قصہ میں محمد بن حییٰ بن حبان اور عبداللہ بن ابوبکر اور عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جگہ قیام تھا، وہاں جھجاہ بن سعید غفاری اور سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہو گیا، جھجاہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کارندے تھے، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لیے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا، لو ہمارے ہی شہروں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کر دیئے، اللہ کی قسم! ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو موٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے، اللہ کی قسم! اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بے مقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاس سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ! عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہو جائے گا کہ محمد اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کر دو۔“
عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو گیا تو بہت سٹ پٹایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! شاید اس بچے نے ہی غلطی کی ہو اسے وہم ہو گیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں اسید بن نضیر رضی اللہ عنہ ملے انہوں نے آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آج کیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی آپ نے کوچ کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا، وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے“، اسید نے کہا یا رسول اللہ! عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ! آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے، دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئیے، اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کر لیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب العزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے، شام ہوئی، رات ہوئی، صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آ گئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:4/52-53:مرسل]
بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے: ”یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو“، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا: اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے، اللہ کی قسم! مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہو گئے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب ابن ابی سلول کے اس قول کا علم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا ۔ [صحیح بخاری:4904]
مسند احمد میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری «هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ» [63-المنافقون:7] “ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے۔ [صحیح بخاری:902]
مسند احمد میں ہے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا، میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا، مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی ۔ [صحیح بخاری:4091]
مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ رضی اللہ عنہم کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اس لیے بلوایا کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں تو انہوں نے اس سے بھی منہ پھیر لیا ۔ [مسند احمد:373/4:صحیح]
قرآن کریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لیے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے ۔ [صحیح بخاری:4900]
ترمذی وغیرہ میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے، پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے، اسی طرح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر قبضہ کر کے حوض پر کر لیا اور اس کے ارد گرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہو گیا۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا، عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے، یہ اعرابی کھانے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جاتے تھے اور کھا لیا کرتے تھے، تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھا لیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے۔
میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا، میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ناراض ہو گئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم و اندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میرا کان پکڑا، جب میں نے سر اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور چل دیئے، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہو سکتا تھا۔
پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس پھر خوش ہو، آپ کے بعد ہی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لائے وہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورۃ المنافقون نازل ہوئی ۔ [سنن ترمذي:3313،قال الشيخ الألباني:صحیح]
دوسری روایت میں اس سورت کا «يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ» [63-المنافقون:8] تک پڑھنا بھی مروی ہے۔ [مستدرک حاکم:488/2:حسن]
عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے، ممکن ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی خبر پہنچائی ہو اور اوس رضی اللہ عنہ نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطی ہو گئی ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
خالد رضی اللہ عنہ ٭٭
ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں خالد رضی اللہ عنہ کو بھیج کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثلل اور سمندر کے درمیان تھا، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا، بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی، کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہو گئے اور جھگڑا ہونے لگا، جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن ابی کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے، ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں، تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے، اب تو بے کار ہوگئے ہو، نفع کا خیال، نہ نقصان کا، تم نے ہی ان جلالیب کو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے۔ اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا: میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہو جائیں گے، یہ باتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سن لیں اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا بیٹھ جاؤ۔“ اتنے میں اسید بن حفیر رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہوئے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہیں نے بھی یہی جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی بٹھا لیا، پھر تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا۔
وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آ گئی، اترنے کو فرمایا، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثلل سے مدینہ شریف پہنچ گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یقیناً، میں اس کا سر تن سے جدا کر دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالتا تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہو جاتے۔ میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو بھی بیدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے۔“
اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں۔
سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جو پکے سچے مسلمان تھے، اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ! میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں، قسم اللہ کی! قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں (لیکن میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں)۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں جوش انتقام میں، میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہو گئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:34179:مرسل]
مسلمان بیٹے کا منافق باپ کا راستہ روکنا ٭٭
عکرمہ اور ابن زید رحمہا اللہ کا بیان ہے کہ ”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے عبداللہ رضی اللہ عنہ مدینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تلوار کھینچ لی، لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو، مدینہ میں نہ جاؤ، اس نے کہا: کیا بات ہے؟ مجھے کیوں روک رہا ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو مدینہ میں نہیں جا سکتا، جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے اجازت نہ دیں، عزت والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور تو ذلیل ہے۔
یہ رک کر کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: قسم ہے اللہ کی! جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جا سکتا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اب عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34171:مرسل] مسند حمیدی میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جا سکتا اور اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا، لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئیے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئیے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں۔ [مسند حمیدی:520/2]