ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، ان لوگوں کی مثال بری ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔[5]
ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی گئی اور عمل کرنے کے لیے انہوں نے اسے لیا پھر عمل نہ کیا، فرمایا جاتا ہے کہ ان کی مثال گدھے کی سی ہے کہ اگر اس پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟ اسی طرح یہ یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں، پس دراصل یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین ہیں، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔
اسی لیے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ» [7-الاعراف:179] یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے، یہ غافل لوگ ہیں۔ یہاں فرمایا اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کی بری مثال ہے، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔
«وَقَالَ الْإِمَام أَحْمَد رَحِمَهُ اللَّه حَدَّثَنَا اِبْن نُمَيْر عَنْ مُجَالِد عَنْ الشَّعْبِيّ عَنْ اِبْن عَبَّاس قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ”مَنْ تَكَلَّمَ يَوْم الْجُمُعَة وَالْإِمَام يَخْطُب فَهُوَ كَمَثَلِ الْحِمَار يَحْمِل أَسْفَارًا وَاَلَّذِي يَقُول لَهُ أَنْصِتْ لَيْسَ لَهُ جُمْعَة“» مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا۔ [مسند احمد:230/1:ضعیف]