اور تم میں سے جو مالی لحاظ سے طاقت نہ رکھے کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرے تو ان میں سے جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں، تمھاری مومن لونڈیوں سے (نکاح کرلے) اور اللہ تمھارے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے، تمھارا بعض بعض سے ہے۔ تو ان سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو اور انھیں ان کے مہر اچھے طریقے سے دو، جب کہ وہ نکاح میں لائی گئی ہوں، بدکاری کرنے والی نہ ہوں اور نہ چھپے یار بنانے والی، پھر جب وہ نکاح میں لائی جاچکیں تو اگر کسی بے حیائی کا ارتکاب کریں تو ان پر اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں پر ہے۔ یہ اس کے لیے ہے جو تم میں سے گناہ میں پڑنے سے ڈرے اور یہ کہ تم صبر کرو تمھارے لیے بہتر ہے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔[25]
ارشاد ہوتا ہے کہ جسے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت قدرت نہ ہو، ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «طول» سے مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے نکاح کی خواہش، ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو وارد کر کے پھر اسے خود ہی توڑ دیا ہے، مطلب یہ کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو مسلمان لونڈیاں ہیں ان سے وہ نکاح کر لیں، تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے میں ایک ہو، لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں ہو سکتا، اسی طرح غلام بھی اپنے سردار کی رضا مندی حاصل کئے بغیر اپنا نکاح نہیں کر سکتا۔
حدیث میں ہے جو غلام بغیر اپنے آقا کی اجازت کے اپنا نکاح کر لے وہ زانی ہے، [سنن ترمذي:1111،قال الشيخ الألباني:صحیح] ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے، وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں۔ [سنن ابن ماجہ:1882:صحیح]
پھر فرمایا عورتوں کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو، گھٹا کر کم کر کے تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کر کے نہ دو۔ پھر فرماتا ہے کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں، نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں، یعنی نہ تو اعلانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے «احصن» کی دوسری قرأت «احصن» بھی ہے، کہا گیا ہے کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے، یہاں احصان سے مراد اسلام ہے یا نکاح والی ہو جانا ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:3/923:ضعیف]
ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان کا احصان اسلام اور عفت ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے اس میں ضعف بھی ہے اور ایک راوی کا نام نہیں، ایسی حدیث حجت کے لائق نہیں ہوتی۔ دوسرا قول یعنی احصان سے مراد نکاح ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:8/202]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مجاہد، عکرمہ، طاؤس، سعید بن جبیر، حسن، قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ابوعلی طبری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے کہ وہ کسی آزاد کے نکاح میں چلی جائے، اسی طرح غلام کا احصان یہ ہے کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے نکاح کر لے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہے، شعبی اور نخعی رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں قرآتوں کے اعتبار سے معنی بھی بدل جاتے ہیں، «احصن» سے مراد تو نکاح ہے اور «احصن» سے مراد اسلام ہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اسی لیے کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے بہر دو صورت جمہور کے مذہب کے مطابق آیت کے معنی میں ابھی بھی اشکال باقی ہے اس لیے کہ جمہور کا قول ہے کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو، پس اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں۔
جمہور کا قول ہے کہ بیشک ”جو بولا گیا“ مفہوم پر مقدم ہے اس لیے ہم نے ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے کا بیان ہے اس آیت کے مفہوم پر مقدم کیا۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا: لوگو! اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو فرمایا، چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے یہ مر نہ جائے چنانچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہو جائے حد نہ مارنا۔ [صحیح مسلم:1705]
ممسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب یہ نفاس سے فارغ ہو تو اسے پچاس کوڑے لگانا۔ [عبد اللہ بن احمد فی زوائد المسند:1/136،1146]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور زنا ظاہر ہو جائے تو اسے وہ حد مارے اور برا بھلا نہ کہے پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو بھی حد لگائے اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور ظاہر ہو تو اسے بیچ ڈالے اگرچہ بالوں کی رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی ہو۔ [صحیح بخاری:6839]
اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب تین بار یہ فعل اس سے سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے۔ [صحیح مسلم:1703] عبداللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی فرماتے ہیں کہ ہم چند قریشی نوجوانوں کو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امارت کی لونڈیوں سے کئی ایک پر حد جاری کرنے کو فرمایا ہم نے انہیں زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے لگائے۔ [بیہقی:242/8:موقوف صحیح]
دوسرا جواب ان کا ہے جو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ لونڈی پر احصان بغیر حد نہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے اور باز رکھنے کے ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسی طرف گئے ہیں طاؤس، سعید، ابو عبید، داؤد ظاہری رحمہ اللہ علیہم کا مذہب بھی یہی ہے ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے اور یہ شرط کے مفہوموں میں سے ہے اور اکثر کے نزدیک یہ محض حجت ہے اس لیے ان کے نزدیک ایک عموم پر مقدم ہو سکتا ہے۔
اور سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہما کی حدیث جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اسے حد لگاؤ، پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ، پھر بیچ ڈالو اگر ایک بالوں کی رسی کے عوض ہی کیوں نہ بیچنا پڑے“، راوی حدیث ابن شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں نہیں جانتا کہ تیسری مرتبہ کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔ [صحیح بخاری:2153]
پس اس حدیث کے مطابق وہ جواب دیتے ہیں کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں فرمائی جیسے کہ محصنہ کے بارے میں صاف فرما دیا ہے اور جیسے کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہو گئی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس سے بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے جو سعید بن منصور نے بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی لونڈی پر حد نہیں جب تک کہ وہ «احصان» والی نہ ہو جائے یعنی جب تک نکاح والی نہ ہو جائے پس جب خاوند والی بن جائے تو اس پر آدھی حد ہے بہ نسبت اس حد کے جو آزاد نکاح والیوں پر ہے۔“ [بیہقی:364/6] یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے لیکن وہ فرماتے ہیں اسے مرفوع کہنا خطا ہے یہ موقوف ہے یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے، بیہقی میں بھی یہ روایت ہے اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے اور کہتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث دوسرے واقعہ کا فیصلہ ہیں۔
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بھی کئی جوابات ہیں ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہو جاتی ہے دوسرے یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے، اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے کہ عباد بن تمیم رحمہ اللہ اپنے چچا سے جو بدری صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر جب زنا کرے تو کوڑے مارو، پھر جب زنا کرے تو کوڑے لگاؤ، پھر جب زنا کرے تو بیچ دو بالوں کی ایک رسی کے بدلے ہی بیچنا پڑے۔۔“
چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بعید نہیں کہ کسی راوی نے جلد کو حد خیال کر لیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کر دیا ہو اور اس نے جلد کو حد خیال کر لیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے طور پر سزا دینے پر کر دیا ہو جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں، اور جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے جس نے اپنی بیوی کی اس لونڈی کے ساتھ زنا کیا جسے بیوی نے اس کے لیے حلال کر دیا تھا حالانکہ اسے سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے طور پر صرف ایک سزا ہے جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ سلف کا خیال ہے۔ حد حقیقی صرف یہ ہے کہ کنوارے کو سو کوڑے اور بیاہے ہوئے کو یا لوطی کو رجم۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ابن ماجہ وغیرہ میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ لونڈی نے جب تک نکاح نہیں کیا اسے زنا پر مارا نہ جائے، اس کی اسناد تو صحیح ہے لیکن معنی دو ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے نہ حد نہ اور نہ کچھ تو یہ قول بالکل غریب ہے، ممکن ہے آیت کے الفاظ پر نظر کرکے یہ فتویٰ دے دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو، دوسرے معنی یہ ہیں کہ حد کے طور پر نہ مارا جائے اگر یہ معنی مراد لیے جائیں تو اس کے خلاف نہیں کہ اور کوئی سزا کی جائے، پس یہ قیاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا وغیرہ کے فتوے کے مطابق ہو جائے گا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں دلالت ہے کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی حد ہے، لیکن محصنہ ہونے سے پہلے کتاب و سنت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے «اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُـمَا مِائَـةَ جَلْدَ» [24-النور:2] یعنی ” زنا کار عورت زنا کار مرد کو ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو “۔
جیسے حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میری بات لے لو، میری بات سمجھ لو، اللہ نے ان کے لیے راستہ نکال لیا، اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم کر دینا۔“ [صحیح مسلم:1690] یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں۔
داؤد بن علی ظاہری رحمہ اللہ کا یہی قول ہے لیکن یہ سخت ضعیف ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے آدھے کوڑے مارنے کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے بھی زیادہ سزا کی سزاوار وہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے کہ «احصان» سے پہلے کم سزا ہے اور «احصان» کے بعد زیادہ سزا ہے پھر اس کے برعکس کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
دیکھئیے شارع علیہ السلام سے آپ کے صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے زنا کی سزا پوچھتے ہیں اور آپ انہیں جواب دیتے ہیں کہ اسے کوڑے مارو لیکن یہ نہیں فرماتے کہ ایک سو کوڑے لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد رحمہ اللہ سمجھتے ہیں تو اسے بیان کر دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا اس لیے کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے تھا کہ لونڈی کے شادی شدہ ہو جانے کے بعد اسے کوڑے مارنے کا بیان نہیں ورنہ اس قید کے لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے وہ غیر شادی شدہ ہے کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا علم تو انہیں ہو چکا تھا اس لیے دوسری کی بابت سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دے کر معلوم کرا دیا جیسے بخاری و مسلم میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ پر درود پڑھنے کی نسبت پوچھا تو آپ نے اسے بیان فرمایا اور فرمایا: ”سلام تو اسی طرح ہے جس طرح تم خود جانتے ہو۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان «يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا» [33-الأحزاب:56] نازل ہوا اور صلوۃ و سلام آپ پر بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں صلوۃ کی کیفیت بیان فرمائے۔ [صحیح بخاری:4798]
پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے۔ مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابوثور کا ہے جو داؤد رحمہ اللہ کے جواب سے زیادہ بودا ہے، وہ فرماتے ہیں جب لونڈیاں شادی شدہ ہو جائیں تو ان کی زناکاری کی حد ان پر آدھی ہے اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زناکاری کی حد ہے تو ظاہر ہے کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رجم آدھا نہیں ہو سکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے گا اور شادی سے پہلے اسے پچاس کوڑے لگیں گے، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے ہیں۔
پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے میں اس سے خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے ہی نہیں، اس لیے کہ آیت کی دلالت کرنی ہے کہ ان پر «محصنات» کا نصف عذاب ہے اور «محصنات» کے لفظ میں جو «الف لام» ہے وہ عہد کا ہے یعنی وہ «محصنات» جن کا بیان آیت کے شروع میں ہے «وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ» [4-النساء:25] میں گزر چکا ہے اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے مسئلہ کی بحث نہیں بحث یہ ہے کہ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زناکاری کی جو سزا تھی اس سے آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے جو آدھی ہو سکتی ہو اور وہ کوڑے ہیں کہ سو سے آدھے پچاس رہ جائیں گے رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے جس کے حصے نہیں ہو سکتے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
مسند احمد میں ایک واقعہ ہے جو ابثور کے مذہب پوری تردید کرتا ہے اس میں ہے کہ صفیہ لونڈی نے ایک غلام سے زناکاری کی اور اسی زنا سے بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے کیا مقدمہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس کا تصفیہ سونپا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے بچہ تو اس کا سمجھا جائے گا جس کی یہ لونڈی ہے اور زانی کو پتھر مارے جائیں گے پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے گئے۔ [مسند احمد:1/104:ضعیف ولہ شواھد]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مفہوم سے تنبیہہ ہے اعلیٰ کے ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھی حد ہے پس ان پر رجم تو سرے سے کسی صورت میں ہے ہی نہیں نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے ہیں جس کی دلیل حدیث ہے، صاحب الایضاح یہی فرماتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اسکو ذکر کرتے ہیں، امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے لائے ہیں لیکن یہ قول لفظ آیت سے بہت دور ہے اس طرح کی آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے اس کے سوا کچھ نہیں پس اس کے علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے گا؟
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ ہونے کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کر سکتا ہے اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں کر سکتا امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے ہاں شادی سے پہلے اس کے مالک کو حد جاری کرنے کا اختیار ہے بلکہ حکم ہے لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی آدھی رہے گی اور یہ بھی دور کی بات ہے اس لیے کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں، اگر اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ لونڈیوں کے بارے میں آدھی حد ہے اور اس صورت میں انہیں بھی عموم میں داخل کر کے پوری حد یعنی سو کوڑے اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہو جاتا جیسے کہ عام روایتوں سے ثابت ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگو اپنے ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اور وہ عام حدیثیں جو پہلے گزر چکی ہیں جن میں خاوندوں والی اور بغیر خاوندوں والیوں کی کوئی تفصیل نہیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت والی حدیث جس سے جمہور نے دلیل پکڑی ہے یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور پھر اس کا زنا ظاہر ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ اس پر حد جاری کرے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے (ملخص)
الغرض لونڈی کی زناکاری کی حد میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں ہوا اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور نکاح ہو جانے کے بعد بھی یہی حد رہے گی اور اسے جلا وطن بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ اس میں تین قول ہیں ایک یہ کہ جلا وطنی ہو گی دوسرے یہ کہ نہ ہو گی تیسرے یہ کہ جلا وطنی میں آدھے سال کو ملحوظ رکھا جائے گا یعنی چھ مہینے کا دیس نکالا دیا جائے گا پورے سال کا نہیں، پورا سال آزاد عورتوں کے لیے ہے۔
یہ تینوں قول امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب میں ہیں، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جلا وطنی تعزیر کے طور پر ہے وہ حد میں سے نہیں امام کی رائے پر موقوف ہے اگر چاہے جلا وطنی دے یا نہ دے مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں ہاں امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں ہے کہ جلا وطنی صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں پر نہیں اس لیے کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے لیے ہے اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے نکل جائے گی اور مردوں یا عورتوں کے بارے میں دیس نکالے کی حدیث صرف سیدنا عبادہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زانی کے بارے میں جس کی شادی نہیں ہوئی تھی حد مارنے اور ایک سال دیس نکالا دینے کا حکم فرمایا تھا۔ [صحیح بخاری:6833]
اس سے معنی مراد یہی ہے کہ اس کی حفاظت رہے اور عورت کو وطن سے نکالے جانے میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں ہو سکتی۔ «واللہ اعلم»
دوسرا قول یہ ہے کہ لونڈی کو اس کی زناکاری پر شادی کے بعد پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور ادب سکھانے کے طور پر اسے کچھ مار پیٹ کی جائے گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں پہلے گزر چکا ہے کہ شادی سے پہلے اسے مارا نہ جائے گا جیسے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ سرے سے کچھ مارنا ہی نہ چاہیئے تو یہ محض تاویل ہی ہو گی ورنہ قول ثانی میں اسے داخل کیا جا سکتا ہے جو یہ ہے کہ شادی سے پہلے سو کوڑے اور شادی کے بعد پچاس جیسے کے داؤد رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہ تمام اقوال سے بودا قول ہے اور قول یہ کہ شادی سے پہلے پچاس کوڑے اور شادی کے بعد رجم جیسے کہ ابوثور رحمہ اللہ کا قول ہے لیکن یہ قول بھی بودا ہے۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَىٰ اَعْلَمُ»
پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لیے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بےشک اسے انہیں پاکدامن لونڈیوں سے نکاح کر لینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لیے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ اس کے مالک کی لونڈی غلام ہوگی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے آقا کی ملکیت امام شافعی رحمہ اللہ کے قول قدیم کے مطابق نہ ہو گی۔
پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے لیے افضل ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے، جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو، بلکہ زنا واقع ہو جانے کا خوف ہو۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح کی سبکی ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا۔
ہاں جمہور کے مخالف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں یہ دونوں باتیں شرط نہیں بلکہ جس کے نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے لونڈی سے نکاح جائز ہے وہ لونڈی خواہ مومنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے ہو۔ چاہے اسے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو، اس کی بڑی دلیل یہ آیت «وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ» [5-المائدة:5] یعنی ” آزاد عورتیں ان میں سے جو تم سے پہلے کتاب اللہ دئے گئے “۔
پس وہ کہتے ہیں یہ آیت عام ہے جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں اور محصنات سے مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے جو جمہور کا مذہب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»