اور اگر تمھاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کی طرف چلی جائے، پھر تم بدلہ حاصل کرو توجن لوگوں کی بیویاں چلی گئی ہیں انھیں اتنا دے دو جتنا انھوں نے خرچ کیا ہے اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔[11]
سورۃ الفتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہو چکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کر دیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کر دیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایماندار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابومیط رضی اللہ عنہا مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا، پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کر دی گئی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے؟ فرمایا: اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی، صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لیے بطور سیر و سیاحت نہیں آئی، کسی دنیا طلبی کے لیے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33958:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہو جائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ۔
اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ باایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ، ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہو جانا ممکن امر ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لیے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کر دیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے زینب رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا: ”اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کر دو“، مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کر لیا اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیج بھی دیا۔ [سنن ابوداود:2692،قال الشيخ الألباني:حسن]
یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ ۸ ہجری میں ان کے خاوند ابوالعاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کر دیا۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:154/3]
اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد ابوالعاص رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلے نکاح پر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیا تھا یہی صحیح حدیث ہے۔ [سنن ترمذي:1143،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اس لیے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہو گئے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا۔ [مسند احمد:208/2:ضعیف]
امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یزید رحمہ اللہ نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی عمرو بن شعیب رحمہ اللہ ہیں اور عمل اسی پر ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب رحمہ اللہ والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کا جواب جمہور دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے کہ ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لیے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کر لینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے اگر چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کر لے اور اسی پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کو محمول کرتے ہیں۔
پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کر دو جیسے کہ مہر۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گزر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس حکم کے نازل ہوتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو کافرہ بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے۔ [مسند احمد:328/4:صحیح]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ» [الممتحنہ:10] الخ، نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا باایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کر دو، اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابوامیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی والدہ یہ ہی تھیں، اس سے ابوجہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کر لیا یہ بھی مشرک تھا، اسی طرح اس حکم کے ماتحت سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کو طلاق دے دی، اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کر لیا۔
پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آ جائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہو چکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کر دیا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لیے کہ «علی الاطلاق حکیم» وہی ہے۔
اس کے بعد کی آیت «وَإِن فاتَكُم شَيءٌ مِن أَزواجِكُم إِلَى الكُفّارِ فَعاقَبتُم فَآتُوا الَّذينَ ذَهَبَت أَزواجُهُم مِثلَ ما أَنفَقوا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذي أَنتُم بِهِ مُؤمِنونَ» [الممتحنہ:11] ، کا مطلب قتادہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لیے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آ جائے تو تم اپنا وہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں،
پس «فَعَاقَبْتُمْ» کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو، یعنی مہر مثل، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں اور خلاف نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»