قرآن مجيد

سورة النساء
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا[23]
حرام کی گئیں تم پر تمھاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں اور تمھاری بہنیں اور تمھاری پھوپھیاں اور تمھاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو اور تمھاری دودھ شریک بہنیں اور تمھاری بیویوں کی مائیں اور تمھاری پالی ہوئی لڑکیاں، جو تمھاری گود میں تمھاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری پشتوں سے ہیں اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو گزر چکا۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔[23]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 23،

کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں؟ ٭٭

نسبی، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیت کریمہ میں ہو رہا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:142/8] ‏‏‏‏

جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں، یہی مذہب ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم کا ہے، امام شافعی رحمہ اللہ سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لیے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور ہیں۔ مترجم)

پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے ۔ [صحیح بخاری:2646] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں ہے رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے، بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لیے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہٰذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمدللہ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہو گئی امام مالک رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور زہری رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئے تو حرمت ثابت ہو گئی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے، [صحیح مسلم:1450] ‏‏‏‏ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابوعبیدہ، ابوثور رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں، سیدنا علی، سیدہ عائشہ، سیدہ ام الفضل، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے۔

بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا۔ [صحیح مسلم:1452] ‏‏‏‏

دوسری دلیل سیدہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سالم کو جو ابوحذیفہ کے مولی تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں، امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے۔ [صحیح مسلم:1453] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»)

یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو، اس کا مفصل بیان «وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ» [2-البقرة:233] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے، پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر (‏‏‏‏صحیح قول جمہور کا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)

پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا بوجہ نکاح ہونے کے اس کی ماں اس پر حرام ہو گئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے، ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہو گی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں، اسی لیے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کر سکتا ہے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے۔

ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مر جائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کر سکتا ہے سیدنا ابوبکر بن کنانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہو گیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہو گئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کر لوں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا:تمہارے لیے یہ جائز ہے پھر میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہی سوال کیا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چنانچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا۔

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے، مجاہد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے، ابن جبیر رحمہ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اسی طرف گئے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس میں توقف فرمایا ہے۔

شافعیوں میں سے ابوالحسن احمد بن محمد بن صابونی رحمہ اللہ سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ہے طبرانی میں ہے کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کر لیا اس سے اولاد بھی ہوئی پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چنانچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کر دیا جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دیدے یا وہ عورت مر جائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لیے اسے ناپسند فرمایا، سیدنا ابن مسعود، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہم، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری رحمہ اللہ علیہم سے بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمدللہ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لیے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہو چکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں۔ (‏‏‏‏ٹھیک مسئلہ یہی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم) [تفسیر ابن جریر الطبری:8957:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں یا نہ پلیں ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لیے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت «وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا» [24-النور:33] ‏‏‏‏ یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بیبس نہ کرو، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں۔

بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! آپ میری بہن ابوسفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کر لیجئے۔ آپ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو؟ ام المؤمنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں؟ آپ نے فرمایا “ سنو مجھ پر وہ حلال نہیں، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے سنا ہے کہ آپ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہما کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے ہے؟ کہا ہاں۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری «ربیبہ» ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لیے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں۔ مجھے اور اس کے باپ ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ خبردار! اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو، [صحیح بخاری:5101-5106] ‏‏‏‏ بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں، [صحیح بخاری:5123] ‏‏‏‏ یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں۔

مالک بن اوس بن حدثان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میری بیوی اولاد چھوڑ کر مر گئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے؟ میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہے فرمایا پھر اس سے نکاح کر لو میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ آپ نے فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے، امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی قول بتایا ہے، ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ہمارے شیخ حافظ ابوعبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

«حجور» سے مراد گھر ہے جیسے کہ ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہو گی یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:اسے پسند نہیں کرتا، اس کی سند منقطع ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لیے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں، شیخ ابوعمر بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت سیدنا عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں، ابو العالیہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح روایت قتادہ مروی ہے۔ آیت «دَخَلْتُمْ بِهِنَّ» سے مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے۔ عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دی جائیں، کپڑا ہٹا دیا جائے، چھیڑ ہو جائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے۔

ابن جریج رحمہ اللہ نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو فرمایا: وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہو گیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہو گئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:148/8] ‏‏‏‏

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہو جانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہو گی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے سسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے «فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَراً زَوَّجْنَـكَهَا لِكَىْ لاَ يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِى أَزْوَاجِ أَدْعِيَآئِهِمْ» [33-الأحزاب:37] ‏‏‏‏ یعنی ” جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے “۔

عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کی بیوی سے نکاح کر لیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کر دی اس پر یہ آیت اور آیت «وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ» [33-الأحزاب:4] ‏‏‏‏ اور آیت «مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَـٰكِنْ رَسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا» [33-الأحزاب:40] ‏‏‏‏ نازل ہوئیں یعنی ” بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے۔ تمہارے لے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں، تمہارے مردوں میں سے محمد (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی مرد کے باپ نہیں۔ [:تفسیر ابن جریر الطبری:8/149] ‏‏‏‏

حسن بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں، طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول رحمہ اللہ علیہم سے بھی اسی طرح مروی ہے میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔

اس مسئلہ پر اتفاق ہے اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہو گی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے۔‏‏‏‏

جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہو چکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت «لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى» [44-الدخان:56] ‏‏‏‏ یعنی ” وہاں موت نہیں آئے گی “ ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آ چکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی۔

صحابہ، تابعین، ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دیدے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا فیروز رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو ۔ [سنن ترمذي:1129،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏مسند احمد) ابن ماجہ ابوداؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے۔

ترمذی میں بھی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابن ماجہ میں ابوخراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے، [سنن ابن ماجہ:1950،قال الشيخ الألباني: حسن] ‏‏‏‏ ممکن ہے کہ سیدنا ضحاک بن فیروز رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوخراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے۔

سیدنا دیلمی رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا: ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو، [ ابن مردویہ ] ‏‏‏‏ پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ)، یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چنانچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا سائل نے کہا قرآن میں جو ہے «اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ» [4-النساء:24] ‏‏‏‏ یعنی ” وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں “،اس پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے۔

جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے۔

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتا سائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کی مثل مروی ہے۔

استذکار ابن عبد البر میں ہے کہ اس واقعہ کے راوی سیدنا قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام اس لیے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا سیدنا الیاس بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں، دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کر سکتے ہو، اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دیدے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آ جائے گی، اسے تو آزاد کر دینے میں ہی سلامتی ہے، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: سنو! آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہو جاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں۔ [اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہو گی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لیے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لیے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم] ‏‏‏‏

یہ یاد رہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے چنانچہ ابن مردویہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا: دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کر دیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آ کر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہو چکے وہ ہو چکے۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے لونڈیوں کے لیے یہ حد نہیں، شعبی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ سیدنا ابوعمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز، عراق، شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے مخالف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ کر، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے۔

کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کر سکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بوجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لا سکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتیٰ میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے عورت کی جو لڑکی ہو کا ہے خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام۔

الحمدللہ تفسیر ابن کثیر کا چوتھا پارہ اپنے اختتام کو پہنچا۔