قرآن مجيد

سورة الحشر
وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[6]
اور جو (مال) اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایا تو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ اور لیکن اللہ اپنے رسولوں کو مسلط کر دیتا ہے جس پر چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔[6]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 6، 7،

مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے ٭٭

«فے» کس مال کو کہتے ہیں؟، اس کی صفت کیا ہے؟، اس کا حکم کیا ہے؟، یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے۔ «فے» اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گزر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ ان کے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آ گئے، اسے «فے» کہتے ہیں اور یہ مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری آیت میں ہے۔

پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور «فے» کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے، بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی، سب اس کے تابع فرمان۔

پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے، جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے، یہ ہے «فے» کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ بنو نضیر کے مال بطور «فے» کے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے ۔ [صحیح بخاری:2904] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں مالک بن اوس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں، میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کر دو۔ میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا: نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر۔

اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا: اے امیر المؤمنین! سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف، سیدنا زبیر بن عوام اور سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم تشریف لائے ہیں، کیا انہیں اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں انہیں آنے دو، چنانچہ یہ حضرات تشریف لائے، یرفا پھر آیا اور کہا: اے امیر المؤمنین! سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اجازت طلب کررہے ہیں، آپ نے فرمایا: اجازت ہے۔ یہ دونوں حضرات بھی تشریف لائے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمؤمنین! میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا: ہاں امیر المؤمنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچایئے۔

مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چارں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ٹھہرو، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ ان چاروں نے اس کا اقرار کیا، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا۔

پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لیے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت «وَمَا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ» [59-الحشر:6] ‏‏‏‏، پڑھی اور فرمایا: بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور «فے» کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اور اپنے اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کر دیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی۔

پھر فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اے عباس! تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔

اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ یقیناً راست گو، نیک کار، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے، چنانچہ اس مال کی ولایت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کر سکتا، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کر سکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں خود اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا۔ [صحیح بخاری:3094] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئے تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کر دیں میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا، لیکن یہ سب سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہ نہیں دیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے۔ لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے۔ لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تب آپ رضی اللہ عنہا راضی ہو کر خاموش ہو گئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا ۔ [صحیح بخاری:4120] ‏‏‏‏

یہ «فے» کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہو گا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورۃ الانفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر «الْحَمْدُ لِلَّـه» گزر چکی ہے اس لیے ہم یہاں بیان نہیں کرتے۔

پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لیے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ نہ بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے۔

پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے (‏‏‏‏یعنی چمڑے پر یا ہاتهوں پر عورتیں سوئی وغیره سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیره بنا لیتی ہیں)‏‏‏‏‏‏‏‏ اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے (‏‏‏‏جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لیے کرتی ہیں) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول میں؟ آپ نے فرمایا: کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول میں بھی، دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں، اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا: کیا تم نے آیت «وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ» [59-الحشر:7] ‏‏‏‏ نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے۔

فرمایا: قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ممانعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل عمل ہیں، اب سنو خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے (‏‏‏‏یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لیے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں) اس عورت نے کہا یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا: جاؤ دیکھو، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی۔

آپ نے فرمایا: کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے (‏‏‏‏شعیب علیه السلام)‏‏‏‏‏‏‏‏ نے کیا فرمایا تھا «وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ» [11-هود:88] ‏‏‏‏ یعنی ” میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں۔“ [مسند احمد:415/1:اسنادہ قوی] ‏‏‏‏

مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لیے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے، یہ سن کر بنو اسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے؟ اور جو قرآن میں موجود ہے، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا۔ آپ نے فرمایا: اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت «وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا» [59-الحشر:7] ‏‏‏‏ نہیں پڑھی؟ اس نے کہا: ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا: اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا ۔ [صحیح بخاری:4886] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ۔ [صحیح بخاری:7288] ‏‏‏‏

نسائی میں سیدنا عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن میں، سبز ٹھلیا میں، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجور یا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ [صحیح مسلم:1997] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے۔ مترجم)

پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے۔