پھر جو شخص نہ پائے تو دو پے درپے مہینوں کا روزہ رکھنا ہے، اس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، پھر جو اس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے ۔[4]
سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ کا واقعہ جو اب آ رہا ہے وہ اس کے اترنے کا باعث نہیں ہوا ہاں البتہ جو حکم ظہار ان آیتوں میں تھا انہیں بھی دیا گیا یعنی غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا یا کھانا دینا، سیدنا سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ خود ان کی زبانی یہ ہے کہ مجھے جماع کی طاقت اوروں سے بہت زیادہ تھی، رمضان میں اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو دن میں روزے کے وقت میں بچ نہ سکوں میں نے رمضان بھر کیلئے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، ایک رات جبکہ وہ میری خدمت میں مصروف تھی بدن کے کسی حصہ پر سے کپڑا ہٹ گیا پھر تاب کہاں تھی؟ اس سے بات چیت کر بیٹھا صبح اپنی قوم کے پاس آ کر میں نے کہا رات ایسا واقعہ ہو گیا ہے تم مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اس گناہ کا بدلہ کیا ہے؟ سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم تو تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم میں اس کی بابت کوئی آیت اترے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی بات فرما دیں کہ ہمیشہ کیلئے ہم پر عار باقی رہ جائے، تو جانے تیرا کام، تو نے ایسا کیوں کیا؟ ہم تیرے ساتھی نہیں، میں نے کہا اچھا پھر میں اکیلا جاتا ہوں۔ چنانچہ میں گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ایسا کیا؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول ! مجھ سے ایسا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”تم نے ایسا کیا؟“ میں نے پھر یہی عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھ سے یہ خطا ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ بھی یہی فرمایا میں نے پھر اقرار کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں موجود ہوں جو سزا میرے لیے تجویز کی جائے میں اسے صبر سے برداشت کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ ایک غلام آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا اے اللہ کے رسول ! میں تو صرف اس کا مالک ہوں اللہ کی قسم مجھے غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دو مہینے کے پے در پے روزے رکھو“، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! روزوں ہی کی وجہ سے تو یہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر جاؤ صدقہ کرو“ میں نے کہا: اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس کچھ نہیں بلکہ آج کی شب سب گھر والوں نے فاقہ کیا ہے، پھر فرمایا: ”اچھا بنو رزیق کے قبیلے کے صدقے والے کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ صدقے کا مال تمہیں دیدیں تم اس میں سے ایک وسق کھجور تو ساٹھ مسکینوں کو دے دو اور باقی تم آپ اپنے اور اپنے بال بچوں کے کام میں لاؤ“، میں خوش خوش لوٹا اور اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پاس تو میں نے تنگی اور برائی پائی اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میں نے کشادگی اور برکت پائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اپنے صدقے تم مجھے دے دو چنانچہ انہوں نے مجھے دے دیئے۔ [سنن ابوداود:3299،قال الشيخ الألباني:حسن]
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ سیدہ خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے بعد کا ہے، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ظہار کا پہلا واقعہ سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کا ہے جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے، ان کی بیوی صاحبہ کا نام سیدہ خولہ بنت ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہا تھا، اس واقعہ سے سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا کو ڈر تھا کہ شاید طلاق ہو گئی، انہوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے میاں نے مجھ سے ظہار کر لیا ہے اور اگر ہم علیحدہ علیحدہ ہو گئے تو دونوں برباد ہو جائیں گے میں اب اس لائق بھی نہیں رہی کہ مجھے اولاد ہو ہمارے اس تعلق کو بھی زمانہ گزر چکا اور بھی اسی طرح کی باتیں کہتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں، اب تک ظہار کا کوئی حکم اسلام میں نہ تھا اس پر یہ آیتیں شروع سورت سے «وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ» [58-المجادلة:4] تک اتریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اوس رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور پوچھا کہ کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو؟ انہوں نے قسم کھا کر انکار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے رقم جمع کی انہوں نے اس سے غلام خرید کر آزاد کیا اور اپنی بیوی صاحبہ سے رجوع کیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33730]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگوں کا یہ فرمان ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
لفظ «ظِّهَار» «ظَّهْر» سے مشتق ہے چونکہ اہل جاہلیت اپنی بیوی سے ظہار کرتے وقت یوں کہتے تھے کہ «أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي» یعنی تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، شریعت میں حکم یہ ہے کہ اس طرح خواہ کسی عضو کا نام لے ظہار ہو جائے گا، ظہار جاہلیت کے زمانے میں طلاق سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے اس میں کفارہ مقرر کر دیا اور اسے طلاق شمار نہیں کیا جیسے کہ جاہلیت کا دستور تھا۔ سلف میں سے اکثر حضرات نے یہی فرمایا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جاہلیت کے اس دستور کا ذکر کر کے فرماتے ہیں اسلام میں جب سیدہ خویلہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ پیش آیا اور دونوں میاں بیوی پچھتانے لگے تو سیدنا اوس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا یہ جب آئیں تو دیکھا کہ آپ کنگھی کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا: ”ہمارے پاس اس کا کوئی حکم نہیں“ اتنے میں یہ آیتیں اتریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خویلہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خوشخبری دی اور پڑھ سنائیں، جب غلام کو آزاد کرنے کا ذکر کیا تو عذر کیا کہ ہمارے پاس غلام نہیں، پھر روزوں کا ذکر سن کر کہا اگر ہر روز تین مرتبہ پانی نہ پئیں تو بوجہ اپنے بڑھاپے کے فوت ہو جائیں، جب کھانا کھلانے کا ذکر سنا تو کہا چند لقموں پر تو سارا دن گزرتا ہے تو اوروں کو دینا کہاں؟ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا وسق تیس صاع منگوا کر انہیں دیئے اور فرمایا اسے صدقہ کر دو اور اپنی بیوی سے رجوع کر لو [تفسیر ابن جریر الطبری:33717ضعیف] اس کی اسناد قوی اور پختہ ہے، لیکن ادائیگی غربت سے خالی نہیں۔
ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، فرماتے ہیں خولہ بنت دلیج ایک انصاری کی بیوی تھیں جو کم نگاہ والے، مفلس اور کج خلق تھے، کسی دن کسی بات پر میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا تو جاہلیت کی رسم کے مطابق ظہار کر لیا جو ان کی طلاق تھی۔ یہ بیوی صاحبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اس وقت آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے اور ام المؤمنین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھو رہی تھیں، جا کر سارا واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کیا ہو سکتا ہے، میرے علم میں تو تو اس پر حرام ہو گئی“ یہ سن کر کہنے لگیں، اللہ! میری عرض تجھ سے ہے، اب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے سر مبارک کا ایک طرف کا حصہ دھو کر گھوم کر دوسری جانب آئیں اور ادھر کا حصہ دھونے لگیں تو سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا بھی گھوم کر اس دوسری طرف آ بیٹھیں اور اپنا واقعہ دوہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ہے تو ان سے کہا کہ دور ہٹ کر بیٹھو، یہ دور کھسک گئیں ادھر وحی نازل ہونی شروع ہوئی جب اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عورت کہاں ہے؟“ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے انہیں آواز دے کر بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، اپنے خاوند کو لے آؤ“، یہ دوڑتی ہوئی گئیں اور اپنے شوہر کو بلا لائیں تو واقعی وہ ایسے ہی تھے جیسے انہوں نے کہا تھا، آپ نے «أَسْتَعِيذ بِاَللَّهِ السَّمِيع الْعَلِيم، بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَن الرَّحِيم» پڑھ کر اس سورت کی یہ آیتیں سنائیں «قَد سَمِعَ اللَّهُ قَولَ الَّتي تُجادِلُكَ في زَوجِها وَتَشتَكي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسمَعُ تَحاوُرَكُما إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ بَصيرٌ» [58-المجادلة:1] ، اور فرمایا: ”تم غلام آزاد کر سکتے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، کہا: ”دو مہینے کے لگاتار ایک کے پیچھے ایک روزے رکھ سکتے ہو؟“ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ اگر دو تین دفعہ دن میں نہ کھاؤں تو بینائی بالکل جاتی رہتی ہے، فرمایا: ”کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن اگر آپ میری امداد فرمائیں تو اور بات ہے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اعانت کی اور فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو اور جاہلیت کی اس رسم طلاق کو ہٹا کر اللہ تعالیٰ نے اسے ظہار مقرر فرمایا۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:33714:مرسل]
سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں «ایلا» اور «ظہار» جاہلیت کے زمانہ کی طلاقیں تھیں، اللہ تعالیٰ نے «ایلا» میں تو چار مہینے کی مدت مقرر فرمائی اور «ظہار» میں کفارہ مقرر فرمایا۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے لفظ «مِنكُم» سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہاں خطاب مومنوں سے ہے اس لیے اس حکم میں کافر داخل نہیں۔
جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ بہ اعتبار غلبہ کے کہہ دیا گیا ہے اس لیے بطور قید کے اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں لے سکتے۔ لفظ «مِّن نِّسَائِهِم» سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے ظہار نہیں، نہ وہ اس خطاب میں داخل ہے۔
پھر فرماتا ہے اس کہنے سے کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے یا میرے لیے تو مثل میری ماں کے ہے یا مثل میری ماں کی پیٹھ کے ہے یا اور ایسے ہی الفاظ اپنی بیوی کو کہہ دینے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی، حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے یہ تولد ہوا ہے، یہ لوگ اپنے منہ سے فحش اور باطل قول بول دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اس نے جاہلیت کی اس تنگی کو تم سے دور کر دیا، اسی طرح ہر وہ کلام جو ایک دم زبان سے بغیر سوچے سمجھے اور بلا قصد نکل جائے۔ چنانچہ ابوداؤد وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے اے میری بہن! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تیری بہن ہے؟“ [سنن ابوداود:2210،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
غرض یہ کہنا برا لگا اسے روکا مگر اس سے حرمت ثابت نہیں کی کیونکہ دراصل اس کا مقصود یہ نہ تھا یونہی زبان سے بغیر قصد کے نکل گیا تھا ورنہ ضرور حرمت ثابت ہو جاتی، کیونکہ صحیح قول یہی ہے کہ اپنی بیوی کو جو شخض اس نام سے یاد کرے جو محرمات ابدیہ ہیں مثلاً بہن یا پھوپھی یا خالہ وغیرہ تو وہ بھی حکم میں ماں کہنے کے ہیں۔ جو لوگ ظہار کریں پھر اپنے کہنے سے لوٹیں اس کا مطلب ایک تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظہار کیا پھر مکرر اس لفظ کو کہا لیکن یہ ٹھیک نہیں۔
بقول امام شافعی رحمہ اللہ مطلب یہ ہے کہ ظہار کیا پھر اس عورت کو روک رکھا یہاں تک کہ اتنا زمانہ گزر گیا کہ اگر چاہتا تو اس میں باقاعدہ طلاق دے سکتا تھا لیکن طلاق نہ دی۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پھر لوٹے جماع کی طرف یا ارادہ کرے تو یہ حلال نہیں تاوقتیکہ مذکورہ کفارہ ادا نہ کرے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے جماع کا ارادہ یا پھر بسانے کا عزم یا جماع ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں مراد ظہار کی طرف لوٹنا ہے اس کی حرمت اور جاہلیت کے حکم کے اٹھ جانے کے بعد، پس جو شخص اب ظہار کرے گا اس پر اس کی بیوی حرام ہو جائے گی جب تک کہ یہ کفارہ ادا نہ کرے۔
سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنی جان پر حرام کر لیا تھا اب پھر اس کام کو کرنا چاہے تو اس کا کفارہ ادا کرے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مجامعت کرنا چاہے ورنہ اور طرح چھونے میں، قبل کفارہ کے بھی، ان کے نزدیک کوئی حرج نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یہاں اس سے مراد صحبت کرنا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:231/32:]
زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہاتھ لگانا، پیار کرنا بھی کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جائز نہیں۔
سنن میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے مل لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تجھ پر رحم کرے ایسا تو نے کیوں کیا؟“ کہنے لگا یا رسول اللہ ! چاندنی رات میں اس کے خلخال کی چمک نے مجھے بیتاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب اس سے قربت نہ کرنا جب تک کہ اللہ کے فرمان کے مطابق کفارہ ادا نہ کر دے“، [سنن ابوداود:2221،قال الشيخ الألباني:صحیح] نسائی میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ مرسل ہونے کو اولیٰ بتاتے ہیں۔
پھر کفارہ بیان ہو رہا ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، ہاں یہ قید نہیں کہ مومن ہی ہو جیسے قتل کے کفارے میں غلام کے مومن ہونے کی قید ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں یہ مطلق اس مقید پر محمول ہو گی کیونکہ غلام کو آزاد کرنے کی شرط جیسی وہاں ہے ایسی ہی یہاں بھی ہے، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ ایک سیاہ فام لونڈی کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اسے آزاد کر دو یہ مومنہ ہے“، [صحیح مسلم:537]
اوپر واقعہ گزر چکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہار کر کے پھر کفارہ سے قبل واقع ہونے والے کو آپ نے دوسرا کفارہ ادا کرنے کو نہیں فرمایا۔
پھر فرماتا ہے اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے یعنی دھمکایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں سے خبردار ہے اور تمہارے احوال کا عالم ہے۔ جو غلام کو آزاد کرنے پر قادر نہ ہو وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے کے بعد اپنی بیوی سے اس صورت میں مل سکتا ہے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینے کے بعد، پہلے حدیثیں گزر چکیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدم پہلی صورت پھر دوسری پھر تیسری، جیسے کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں بھی ہے جس میں آپ نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو فرمایا تھا۔ [صحیح بخاری:1936]
ہم نے یہ احکام اس لیے مقرر کئے ہیں کہ تمہارا کامل ایمان اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو جائے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کے محرمات ہیں! خبردار اس حرمت کو نہ توڑنا۔ جو کافر ہوں یعنی ایمان نہ لائیں حکم برداری نہ کریں شریعت کے احکام کی بےعزتی کریں ان سے لاپرواہی برتیں انہیں بلاؤں سے بچنے والا نہ سمجھو بلکہ ان کیلئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہیں۔