قرآن مجيد

سورة الواقعة
إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ[95]
بلا شبہ یقینا یہی ہے وہ سچ جو یقینی ہے۔[95]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 88، 89، 90، 91، 92، 93، 94، 95، 96،

احوال موت ٭٭

یہاں وہ احوال بیان ہو رہے ہیں جو موت کے وقت، سکرات کے وقت، دنیا کی آخری ساعت میں، انسانوں کے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا اللہ کا مقرب ہے یا اس سے کم درج کا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔ یا بالکل بدنصیب ہے جو اللہ سے جاہل رہا اور راہ حق سے غافل رہا۔

فرماتا ہے کہ جو مقربین بارگاہ الٰہی ہیں، جو احکام کے عامل تھے، نافرمانیوں کے تارک تھے انہیں تو فرشتے طرح طرح کی خوشخبریاں سناتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی حدیث گزری کہ «أَيَّتُهَا الرُّوحُ الطَّيِّبَةُ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ كُنْتِ تَعْمُرِينَه، اخْرُجِي إِلَى رَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبَ غَيْرِ غَضْبَان» رحمت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں اے پاک روح! پاک جسم والی روح! چل راحت و آرام کی طرف، چل کبھی نہ ناراض ہونے والے رحمن کی طرف۔

«رَوْحٍ» سے مرد راحت ہے اور «رَيْحَانٍ» سے مراد آرام ہے۔ غرض دنیا کے مصائب سے راحت مل جاتی ہے ابدی سرور اور سچی خوشی اللہ کے غلام کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے وہ ایک فراخی اور وسعت دیکھتا ہے اس کے سامنے رزق اور رحمت ہوتی ہے وہ جنت عدن کی طرف لپکتا ہے۔

ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنت کی ایک ہری بھری شاخ آتی ہے اور اس وقت مقرب اللہ کی روح قبض کی جاتی ہے۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں مرنے سے پہلے ہی ہر مرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے (‏‏‏‏یا اللہ! ہمارے اس وقت میں تو ہماری مدد کر ہمیں ایمان سے اٹھا اور اپنی رضا مندی کی خوشخبری سنا کر سکون و راحت کے ساتھ یہاں سے لے جا آمین) گو سکرات کے وقت کی احادیث ہم سورۃ ابراہیم کی آیت «‏‏‏‏يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ» [14-ابراھیم:27] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں وارد کر چکے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کا بہترین موقعہ ہے اس لیے یہاں ایک ٹکڑا بیان کرتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے میرے فلاں بندے کے پاس جا اور اسے میرے دربار میں لے آ، میں نے اسے رنج، راحت و آرام تکلیف، خوشی، ناخوشی غرض ہر آزمائش میں آزما لیا اور اپنی مرضی کے مطابق پایا بس اب میں اسے ابدی راحت دینا چاہتا ہوں، جا اسے میرے خاص دربار میں پیش کر۔ ملک الموت علیہ السلام پانچ سو رحمت کے فرشتے اور جنت کے کفن اور جنتی خوشبوئیں ساتھ لے کر اس کے پاس آتے ہیں گو ریحان ایک ہی ہوتا ہے لیکن سرے پر بیس قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کی جداگانہ مہک ہوتی ہے، سفید ریشم ساتھ ہوتا ہے، جس میں مشک کی لپٹیں آتی ہیں، الخ۔

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت «فَرُوْحٌ» راء کے پیش سے تھی۔ [سنن ابوداود:3991،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

لیکن تمام قاریوں کی قرأت رے کے زبر سے ہے یعنی «فَرُوْحٌ» ۔

مسند میں ہے سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے رسول مقبول علیہ السلام سے پوچھا کیا مرنے کے بعد ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روح ایک پرند ہو جائے گی، جو درختوں کے میوے چگے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اس وقت اپنے اپنے جسم میں چلی جائے گی۔ [مسند احمد:425/6:صحیح] ‏‏‏‏

اس حدیث میں ہر مومن کے لیے بہت بڑی بشارت ہے۔ مسند احمد میں بھی اس کی شاہد ایک حدیث ہے جس کی اسناد بہت بہتر ہے اور متن بھی بہت قوی ہے [مسند احمد:455/3:صحیح] ‏‏‏‏

اور صحیح روایت میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں، ساری جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی رہتی ہیں اور عرش تلے لٹکی ہوئی قندیلوں میں آ بیٹھتی ہیں۔ [صحیح مسلم:121-1887] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ رحمہ اللہ ایک جنازے میں گدھے پر سوار جا رہے تھے آپ رحمہ اللہ کی عمر اس وقت بڑھاپے کی تھی، سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، اسی اثناء میں آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو برا جانتا ہے، اللہ بھی اس کی ملاقات سے کراہت کرتا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم یہ سن کر سر جھکائے رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روتے کیوں ہوں؟، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! بھلا موت کون چاہتا ہے؟ فرمایا: سنو سنو مطلب سکرات کے وقت سے ہے، اس وقت نیک مقرب بندے کو تو راحت و انعام اور آرام دہ جنت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جس پر وہ تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جلد اللہ سے ملے تاکہ ان نعمتوں سے مالا مال ہو جائے، پس اللہ بھی اس کی ملاقات کی تمنا کرتا ہے اور اگر بد بندہ ہے تو اسے موت کے وقت گرمی پانی اور جہنم کی مہمانی کی خبر دی جاتی ہے جس سے یہ بےزار ہو جاتا ہے اور اس کی روح روئیں روئیں میں چھپنے اور اٹکنے لگتی ہے اور یہ دل چاہتا ہے کہ کسی طرح اللہ کے حضور میں حاضر نہ ہوؤں پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ [مسند احمد:259/4:حسن] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے اگر وہ سعادت مندوں سے ہے تو موت کے فرشتے اسے سلام کہتے ہیں، تجھ پر سلامتی ہو، تو اصحاب یمین میں سے ہے، اللہ کے عذاب سے تو سلامتی پائے گا اور خود فرشتے بھی اسے سلام کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ» * «نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ» * «نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ» [41-فصلت:30-32] ‏‏‏‏ یعنی ” سچے پکے توحید والوں کے پاس ان کے انتقال کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں کہ کچھ ڈر خوف نہیں، کچھ رنج و غم نہ کر، جنت تیرے لیے حسب وعدہ تیار ہے، دنیا اور آخرت میں ہم تیری حمایت کے لیے موجود ہیں، جو تمہارا جی چاہے تمہارے لیے موجود ہے، جو تمنا تم کرو گے پوری ہو کر رہے گی، غفور و رحیم اللہ کے تم ذی عزت مہمان ہو “۔

بخاری میں ہے یعنی تیرے لیے مسّلم ہے کہ تو اصحاب یمین میں سے ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سلام یہاں دعا کے معنی میں ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

اور اگر مرنے والا حق کی تکذیب کرنے والا اور ہدایت سے کھویا ہوا ہے تو اس کی ضیافت اس گرم «حَمِيم» سے ہو گی جو آنتیں اور کھال تک جھلسا دے، پھر چاروں طرف سے جہنم کی آگ گھیر لے گی جس میں جلتا بھنتا رہے گا۔ * پھر فرمایا یہ یقینی باتیں ہیں جن کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ پس اپنے بڑے رب کے نام کی تسبیح کرتا رہے۔

مسند میں ہے اس آیت «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ» [الواقعہ:96] ‏‏‏‏ کے اترنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رکوع میں رکھو اور «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» [سورةالأعلى87:1] ‏‏‏‏ اترنے پر فرمایا: اسے سجدے میں رکھو۔‏‏‏‏ [سنن ابوداود:869،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے «سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ» کہا اس کے لیے جنت میں ایک درخت لگایا جاتا۔ [سنن ترمذي:3464،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

صحیح بخاری کے ختم پر یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں، میزان میں بوجھ ہیں اللہ کو بہت پیارے ہیں۔ «سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ» [صحیح بخاری:6406] ‏‏‏‏

«الحمدللہ» سورۃ الواقعہ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ قبول فرمائے (‏‏‏‏اور ہمارے کل واقعات کا انجام بھلا کرے)۔