ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی یہ قسمیں کلام کو شروع کرنے کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے۔
جمہور فرماتے ہیں یہ قسمیں ہیں اور ان میں ان چیزوں کی عظمت کا اظہار بھی ہے، بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں پر «لا» زائد ہے اور «إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ» [56-الواقعہ:77] جواب قسم ہے اور لوگ کہتے ہیں «لا» کو زائد بتانے کی کوئی وجہ نہیں، کلام عرب کے دستور کے مطابق وہ قسم کے شروع میں آتا ہے، جبکہ جس چیز پر قسم کھائی جائے وہ منفی ہو، جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں ہے «لا واللہ ما مست ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ید امراۃ قط» یعنی اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے لگایا نہیں یعنی بیعت میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ [صحیح مسلم:1866]
اسی طرح یہاں بھی «لا» قسم کے شروع میں مطابق قاعدہ ہے نہ کہ زائد۔ تو کلام کا مقصود یہ ہے کہ تمہارے جو خیالات قرآن کریم کی نسبت ہیں یہ جادو ہے یا کہانت ہے غلط ہیں۔ بلکہ یہ پاک کتاب کلام اللہ ہے۔
بعض عرب کہتے ہیں کہ «لا» سے ان کے کلام کا انکار ہے پھر اصل امر کا اثبات الفاظ میں ہے «فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ» [56-الواقعة:75] سے مراد قرآن کا بتدریج اترنا ہے، لوح محفوظ سے تو لیلۃ القدر میں ایک ساتھ آسمان اوّل پر اترا آیا پھر حسب ضروت تھوڑا تھوڑا وقت بروقت اترتا رہا یہاں تک کہ کئی برسوں میں پورا اتر آیا۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد ستاروں کے طلوع اور ظاہر ہونے کی آسمان کی جگہیں ہیں۔ «مَوَاقِعِ» سے مراد منازل ہیں۔
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن ان کا منتشر ہو جانا ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کی نسبت مشرکین عقیدہ رکھتے تھے کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسی۔
پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے اس لیے کہ جس امر پر یہ قسم کھائی جا رہی ہے وہ بہت بڑا امر ہے یعنی یہ قرآن بڑی عظمت والی کتاب ہے معظم و محفوظ اور مضبوط کتاب میں ہے۔ جسے صرف پاک ہاتھ ہی لگتے ہیں یعنی فرشتوں کے ہاں یہ اور بات ہے کہ دنیا میں اسے سب کے ہاتھ لگتے ہیں۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «مَا يَمَسُّهُ» ہے۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں پاک سے مراد انسان نہیں انسان تو گنہگار ہے۔ یہ کفار کا جواب ہے وہ کہتے تھے کہ اس قرآن کو لے کر شیطان اترتے ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ» * «وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ» * «إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ» [26-الشعراء:212-210] یعنی اسے نہ تو شیطان لے کر اترے ہیں، نہ ان کے یہ لائق، نہ ان کی یہ مجال بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ ہیں “۔ یہی قول اس آیت کی تفسیر میں دل کو زیادہ لگتا ہے۔ اور اقوال بھی اس کے مطابق ہو سکتے ہیں۔
فراء نے کہا ہے اس کا ذائقہ اور اس کا لطف صرف باایمان لوگوں کو ہی میسر آتا ہے۔ بعض کہتے ہیں مراد جنابت اور حدث سے پاک ہونا ہے گو یہ خبر ہے لیکن مراد اس سے انشاء ہے۔ اور قرآن سے مراد یہاں پر مصحف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ نہ لگائے۔
ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ساتھ لے کر حربی کافروں کے ملک میں جانے سے منع فرمایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسے دشمن کچھ نقصان پہنچائے ۔ [صحیح مسلم:4816]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمان سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک۔ [موطامالک 199/1]
مراسیل ابوداؤد میں ہے زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے خود اس کتاب کو دیکھا ہے اور اس میں یہ جملہ پڑھا ہے گو اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں لیکن ہر ایک قابل غور ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
پھر ارشاد ہے کہ یہ قرآن شعر و سخن جادو اور فن نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی جانب سے اترا ہے، یہ سراسر حق ہے بلکہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا اس کے خلاف جو ہے باطل اور یکسر مردود ہے۔ پھر تم ایسی پاک بات سے کیوں انکار کرتے ہو؟ کیوں اس سے ہٹنا اور یکسو ہو جانا چاہتے ہو؟ کیا اس کا شکر یہی ہے کہ تم اسے جھٹلاؤ؟
قبیلہ ازد کے کلام میں رزق شکر کے معنی میں آتا ہے۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر کیا ہے۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر ہے۔ یعنی تم کہتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں پانی ملا اور فلاں ستارے سے فلاں چیز۔ [سنن ترمذي:3295،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر بارش کے موقعہ پر بعض لوگ کفریہ کلمات بک دیتے ہیں کہ بارش کا باعث فلاں ستارہ ہے۔ موطا میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں تھے رات کو بارش ہوئی، صبح کی نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا جانتے بھی ہو آج شب تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم۔ آپ نے فرمایا سنو! یہ فرمایا کہ آج میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ کافر ہو گئے اور بہت سے ایماندار بن گئے۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل و کرم سے پانی برسا وہ میری ذات پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں سے کفر کرنے والا ہوا۔ اور جس نے کہا فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس ستارے پر ایمان لایا۔ [صحیح بخاری:810]
مسلم کی حدیث میں عموم ہے کہ آسمان سے جو برکت نازل ہوتی ہے وہ بعض کے ایمان کا اور بعض کے کفر کا باعث بن جاتی ہے۔ [صحیح مسلم72-126]
ہاں یہ خیال رہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ ثریا ستارہ کتنا باقی ہے؟ پھر کہا تھا کہ اس علم والوں کا خیال ہے کہ یہ اپنے ساقط ہو جانے کے ہفتہ بھر بعد افق پر نمودار ہوتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ اس سوال جواب اور استسقاء کو سات روز گزرے تھے جو پانی برسا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:662/11]
یہ واقعہ محمول ہے عادت اور تجربہ پر نہ یہ کہ اس ستارے میں ہے اور اس ستارے کو ہی اثر کا موجد جانتے ہوں۔ اس قسم کا عقیدہ تو کفر ہے ہاں تجربہ سے کوئی چیز معلوم کر لینا یا کوئی بات کہہ دینا دوسری چیز ہے، اس بارے کی بہت سی حدیثیں آیت «مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» [ 35- فاطر: 2 ] کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تو اللہ کی برسائی ہوئی ہے، یہ رزق الٰہی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33560:ضعیف]
ایک مرفوع حدیث میں ہے لوگوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے اگر سات سال قحط سالی رہے اور پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے بارش برسائے تو بھی یہ جھٹ سے زبان سے نکالنے لگیں گے کہ فلاں تارے نے برسایا۔ [مسند احمد:7/3:حسن]
مجاہد فرماتے ہیں اپنی روزی تکذیب کو ہی نہ بنا لو یعنی یوں نہ کہو کہ فلاں فراخی کا سبب فلاں چیز ہے بلکہ یوں کہو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس یہ بھی مطلب ہے اور یہ بھی کہ قرآن میں ان کا حصہ کچھ نہیں بلکہ ان کا حصہ یہی ہے کہ یہ اسے جھوٹا کہتے رہیں اور اسی مطلب کی تائید اس سے پہلے کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔