قرآن مجيد

سورة الواقعة
لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ[50]
ایک معلوم دن کے مقرر وقت پر یقینا اکٹھے کیے جانے والے ہیں۔[50]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 41، 42، 43، 44، 45، 46، 47، 48، 49، 50، 51، 52،

اصحاب شمال اور عذاب الٰہی ٭٭

اصحاب یمین کا ذکر کرنے کے بعد اصحاب شمال کا ذکر ہو رہا ہے فرماتا ہے ان کا کیا حال ہے یہ کس عذاب میں ہوں گے؟ پھر ان عذابوں کا بیان فرماتا ہے کہ یہ گرم ہوا کے تھپیڑوں اور کھولتے ہوئے گرم پانی میں ہیں اور دھوئیں کے سخت سیاہ سائے میں جیسے اور جگہ «انطَلِقُوا إِلَى مَا كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ» * «انطَلِقُوا إِلَى ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ» * «لَّا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّـهَبِ» * «إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ» * «كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ» * «وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ» [77-المرسلات:34-29] ‏‏‏‏ فرمایا ہے یعنی ” اس دوزخ کی طرف چلو جسے تم جھٹلاتے تھے۔ چلو تین شاخوں والے سایہ کی طرف جو نہ گھنا ہے نہ آگ کے شعلے سے بچا سکتا ہے، وہ دوزخ محل کی اونچائی کے برابر چنگاریاں پھینکتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ سرد اونٹنیاں ہیں۔ آج تکذیب کرنے والوں کی خرابی ہے “۔

اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ یہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں عمل نامہ دیا گیا ہے یہ سخت سیاہ دھوئیں میں ہوں گے جو نہ جسم کو اچھا لگے، نہ آنکھوں کو بھلا معلوم ہو، یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ برائی بیان کر لی ہو وہاں اس کا ہر ایک برا وصف بیان کر کے اس کے بعد «وَلَا كَرِيمٍ» کہہ دیتے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ بیان فرمایا ہے یہ لوگ ان سزاؤں کے مستحق اس لیے ہوئے کہ دنیا میں جو اللہ کی نعمتیں انہیں ملی تھیں ان میں یہ سست ہو گئے۔ رسولوں کی باتوں کی طرف نظر بھی نہ اٹھائی۔ بدکاریوں میں پڑ گئے اور پھر توبہ کی طرف دلی توجہ بھی نہ رہی۔

«الْحِنْثِ الْعَظِيمِ» سے مراد بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کفر شرک ہے، بعض کہتے ہیں جھوٹی قسم ہے، پھر ان کا ایک اور عیب بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کا ہونا بھی محال جانتے تھے، اس کی تکذیب کرتے تھے اور عقلی استدلال پیش کرتے تھے کہ مر کر مٹی میں مل کر پھر بھی کہیں کوئی جی سکتا ہے؟ انہیں جواب مل رہا ہے کہ «إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ» * «وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ» * «يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ» [11-ھود:103-105] ‏‏‏‏ تمام اولاد آدم قیامت کے دن نئی زندگی میں پیدا ہو کر اور ایک میدان میں جمع ہو گی، کوئی ایک وجود بھی ایسا نہ ہو گا جو دنیا میں آیا ہو اور یہاں نہ ہو۔

جیسے اور جگہ ہے اس دن سب جمع کر دیئے جائیں گے یہ حاضر باشی کا دن ہے، تمہیں دنیا میں چند روز مہلت ہے، قیامت کے دن کون ہے جو بلا اجازت اللہ لب بھی ہلا سکے؟ انسان دو قسم پر تقسیم کر دیئے جائیں گے نیک الگ اور بد علیحدہ۔ وقت قیامت محدود اور مقرر ہے، کمی زیادتی تقدیم تاخیر اس میں بالکل نہ ہو گی۔ پھر تم اے گمراہو اور جھٹلانے والو! زقوم کے درخت کھلوائے جاؤ گے، انہیں سے پیٹ بوجھل کرو گے کیونکہ جبراً وہ تمہارے حلق میں ٹھونسا جائے گا،پھر اس پر کھولتا ہوا پانی تمہیں پینا پڑے گا اور وہ بھی اس طرح جیسے پیاسا اونٹ پی رہا ہو۔

«هِيمِ» جمع ہے اس کا واحد «اهِيم» ہے مونث «ہیماء» ہے «ہائم» اور «ہائمہ» بھی کہا جاتا ہے۔ سخت پیاس والے اونٹ کو کہتے ہیں جسے پیاس کی بیماری ہوتی ہے پانی چوستا رہتا ہے لیکن سیرابی نہیں ہوتی اور نہ اس بیماری سے اونٹ جانبر ہوتا ہے، اسی طرح یہ جہنمی جبراً سخت گرم پانی پلائے جائیں گے جو خود ایک بدترین عذاب ہو گا بھلا اس سے پیاس کیا رکتی ہے؟

سیدنا خالد بن معدان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ہی سانس میں پانی پینا یہ بھی پیاس والے اونٹ کا سا پینا ہے اس لیے مکروہ ہے پھر فرمایا ان مجرموں کی ضیافت آج جزا کے دن یہی ہے، جیسے متقین کے بارے میں اور جگہ ہے «إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّـتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً» [18-الکھف:107] ‏‏‏‏ ان کی مہمانداری جنت الفردوس ہے۔