پس فرماتا ہے کہ ہم نے ان بیویوں کو نئی پیدائش میں پیدا کیا ہے، اس کے بعد کہ وہ بلکل پھوس بڑھیا تھیں ہم نے انہیں نوعمر کنواریاں کر کے ایک خاص پیدائش میں پیدا کیا۔ وہ اپنے ظرافت و ملاحت، حسن و صورت و جسامت سے خوش خلقی اور حلاوت کی وجہ سے اپنے خاوندوں کی بڑی پیاریاں ہیں۔ بعض کہتے ہیں «عرباء» کہتے ہیں ناز و کرشمہ والیوں کو۔
حدیث میں ہے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا میں بڑھیا تھیں اور اب جنت میں گئی ہیں تو انہیں نوعمر وغیرہ کر دیا ہے ۔ [سنن ترمذي:3296،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ خواہ یہ عورتیں کنواری تھیں یا ثیبہ تھیں اللہ ان سب کو ایسی کر دے گا، [تفسیر ابن جریر الطبری:3393:ضعیف]
ایک بڑھیا عورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتی ہے کہ یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام فلاں! جنت میں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی، وہ روتی ہوئی واپس لوٹیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، انہیں سمجھا دو“، مطلب یہ ہے کہ جب وہ جنت میں جائیں گی، بڑھیا نہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم انہیں نئی پیدائش میں پیدا کریں گے پھر باکرہ کر دیں گے شمائل ترمذی وغیرہ۔ [شمائل ترمذی:240ضعیف]
طبرانی میں ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا: یا رسول اللہ ! حورعین کی خبر مجھے دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”وہ گورے رنگ کی ہیں، بڑی بڑی آنکھوں والی ہیں، سخت سیاہ اور بڑے بڑے بالوں والی ہیں جیسے گدھ کا پر۔“ میں نے کہا «اللُّؤْلُـہ الْمَكْنُوْنِ» [56-الواقعة:23] کی بابت خبر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دن کی صفائی اور جوت مثل اس موتی کے ہے جو سیپ سے ابھی ابھی نکلا ہو جسے کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو“، میں نے کہا «خَيراتٌ حِسانٌ» [33-الأحزاب:70] کی کیا تفسیر ہے؟ فرمایا: ”خوش خلق خوبصورت“ میں نے کہا «كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ» [37-الصافات:49] سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”ان کی نزاکت اور نرمی انڈے کی اس جھلی کی مانند ہو گی جو اندر ہوتی ہے“، میں نے «عُرُبًا أَترابًا» [56-الواقعة:37] کے معنی دریافت کئے، فرمایا: ”اس سے مراد دنیا کی مسلمان جنتی عورتیں ہیں جو بالکل بڑھیا پھوس تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں نئے سرے سے پیدا کیا اور کنواریاں اور خاوندوں کی چہیتیاں اور خاوندوں سے عشق رکھنے والیاں اور ہم عمر بنا دیں“، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! دنیا کی عورتیں افضل ہیں یا حورعین؟ فرمایا: ”دنیا کی عورتیں حورعین سے بہت افضل ہیں، جیسے استر سے ابرا ہوتا ہے“، میں نے کہا: اس فضیلت کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”نمازیں، روزے اور اللہ تعالیٰ کی عبادتیں، اللہ نے ان کے چہرے نور سے، ان کے جسم ریشم سے سنوار دیئے ہیں، سفید ریشم، سبز ریشم اور زرد سنہرے ریشم اور زرد سنہرے زیور بخوردان موتی کے کنگھیاں سونے کی یہ کہتی رہیں گی۔ «نحن الخالدات فلا نموت ابدا» *** «ونحن الناعمات فلا نباس ابدا» *** «ونحن المقیمات فلانطعن ابدا» *** «ونحن الراضیات فلا نسخط ابدا» *** «طوبی لمن کنا لہ وکان لنا» یعنی ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی مریں گی نہیں، ہم ناز اور نعمت والیاں ہیں کہ کبھی سفر میں نہیں جائیں گی ہم اپنے خاوندوں سے خوش رہنے والیاں ہیں کہ کبھی روٹھیں گی نہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے لیے ہم ہیں اور خوش نصیب ہیں ہم کہ ان کے لیے ہیں۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! بعض عورتوں کے دو دو تین تین چار چار خاوند ہو جاتے ہیں اس کے بعد اسے موت آتی ہے مرنے کے بعد اگر یہ جنت میں گئی اور اس کے سب خاوند بھی گئے تو یہ کسے ملے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ چاہے رہے“، چنانچہ یہ ان میں سے اسے پسند کرے گی جو اس کے ساتھ بہترین برتاؤ کرتا رہا ہو، اللہ تعالیٰ سے کہے گی، پروردگار! یہ مجھ سے بہت اچھی بودوباش رکھتا تھا اسی کے نکاح میں مجھے دے“، اے ام سلمہ! حسن خلق دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو لیے ہوئے ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33402:ضعیف]
«صور» کی مشہور مطول حدیث میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو جنت میں لے جانے کی سفارش کریں گے جس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے آپ کی شفاعت قبول کی اور آپ کو انہیں جنت میں پہنچانے کی اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا، اللہ کی قسم! تم جس قدر اپنے گھربار اور اپنی بیویوں سے واقف ہو اس سے بہت زیادہ اہل جنت اپنے گھروں اور بیویوں سے واقف ہوں گے۔ پس ایک ایک جنتی کی بہتّر بہتّر بیویاں ہوں گی جو اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور دو دو بیویاں عورتوں میں سے ہوں گی کہ انہیں بوجہ اپنی عبادت کے ان سب عورتوں پر فضیلت حاصل ہو گی جنتی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا، یہ اس بالاخانے میں ہو گی، جو یاقوت کا بنا ہوا ہو گا، اس پلنگ پر ہو گی جو سونے کی تاروں سے بنا ہوا ہو گا اور جڑاؤ جڑا ہوا ہو گا، ستر جوڑے پہنے ہوئے ہوں گے جو سب باریک اور سبز چمکیلے خالص ریشم کے ہوں گے، یہ بیوی اس قدر نازک نورانی ہو گی کہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سینے کی طرف سے دیکھے گا تو صاف نظر آ جائے گا، کہ کپڑے گوشت ہڈی کوئی چیز روک نہ ہو گی اس قدر اس کا جسم صاف اور آئینہ نما ہو گا جس طرح مروارید میں سوراخ کر کے ڈورا ڈال دیں تو وہ ڈورا باہر سے نظر آتا ہے اسی طرح اس کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا۔ ایسا ہی نورانی بدن اس جنتی کا بھی ہو گا، الغرض یہ اس کا آئینہ ہو گی، اور وہ اس کا یہ اس کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہو گا، نہ یہ تھکے، نہ وہ اس کا دل بھرے، نہ اس کا، جب کبھی نزدیکی کرے گا تو کنواری پائے گا، نہ اس کا عضو سست ہو، نہ اسے گراں گزرے مگر خاص پانی وہاں نہ ہو گا جس سے گھن آئے، یہ یونہی مشغول ہو گا جو کان میں ندا آئے گی کہ یہ تو ہمیں خوب معلوم ہے کہ نہ آپ کا دل ان سے بھرے گا نہ ان کا آپ سے مگر آپ کی دوسری بیویاں بھی ہیں، اب یہ یہاں سے باہر آئے گا اور ایک ایک کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا اسے دیکھ کر بےساختہ اس کے منہ سے نکل جائے گا کہ رب کی قسم تجھ سے بہتر جنت میں کوئی چیز نہیں نہ میری محبت کسی سے تجھ سے زیادہ ہے۔ «بیھقی فی البعث والنشور669:ضعیف»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ! کیا جنت میں جنتی لوگ جماع بھی کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے خوب اچھی طرح، بہترین طریق پر جب الگ ہو گا وہ اسی وقت پھر پاک صاف اچھوتی باکرہ بن جائے گی۔“ «حسن»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کو جنت میں اتنی اتنی عورتوں کے پاس جانے کی قوت عطا کی جائے گی، سیدنا انس رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا اتنی طاقت رکھے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سو آدمیوں کے برابر اسے قوت ملے گی۔“ [سنن ترمذي:2536،قال الشيخ الألباني:حسن]
طبرانی کی حدیث میں ہے ایک سو کنواریوں کے پاس ایک ایک دن میں ہو آئے گا۔ [طبرانی اوسط:5236:ضعیف] حافظ عبداللہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ حدیث شرط صحیح پر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما «عربا» کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہ اپنے خاوندوں کی محبوبہ ہوں گی، یہ اپنے خاوندوں کی عاشق اور خاوند ان کے عاشق۔
عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس کا معنی ناز و کرشمہ والی ہے اور سند سے مروی ہے کہ معنی نزاکت والی ہے، تمیم بن حدلم کہتے ہیں «عربا» اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے خاوند کا دل مٹھی میں رکھے۔
زید بن اسلم رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد خوش کلام ہے اپنی باتوں سے اپنے خاوندوں کا دل مول لیتی ہیں جب کچھ بولیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پھول جھڑتے ہیں اور نور برستا ہے۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ انہیں عرب اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کی بول چال عربی زبان میں ہو گی۔ «ضعیف و منقطع»
«اتراب» کے معنی ہیں ہم عمر یعنی تینتیس برس کی اور معنی ہیں کہ خاوند کی اور ان کی طبیعت اور خلق بالکل یکساں ہے جس سے وہ خوش یہ خوش جو اسے ناپسند اسے بھی ناپسند۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ آپس میں ان میں بیر، بغض، سوتیا، ڈاہ، حسد اور رشک نہ ہو گا۔ یہ سب آپس میں بھی ہم عمر ہوں گی تاکہ بےتکلف ایک دوسری سے ملیں جلیں، کھیلیں کودیں۔
ترمذی کی حدیث میں ہے کہ یہ جنتی حوریں ایک روح افزا باغ میں جمع ہو کر نہایت پیارے گلے سے گانا گائیں گی کہ ایسی سریلی اور رسیلی آواز مخلوق نے کبھی نہ سنی ہو گی۔ [سنن ترمذي:2564،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ان کا گانا وہی ہو گا جو اوپر بیان ہوا ابو یعلیٰ میں ہے ان کے گانے میں یہ بھی ہو گا «نحن خیرات حسان» *** «خبئنا لازواج کرام» ہم پاک صاف خوش وضع خوبصورت عورتیں ہیں جو بزرگ اور ذی عزت شوہروں کے لیے چھپا کر رکھی گئی تھیں۔ [ابو نعیم فی صفة الجنة:280/2]
اور روایت میں «خیرات» کے بدلے «جوار» کا لفظ آیا ہے۔ پھر فرمایا یہ اصحاب یمین کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انہی کے لیے محفوظ و مصؤن رکھی گئی تھیں۔ لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ متعلق ہے «اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاءً» [56-الواقعة:35] کے یعنی ہم نے انہیں ان کے لیے پیدا کیا ہے۔
ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں نے ایک رات تہجد کی نماز کے بعد دعا مانگنی شروع کی، چونکہ سخت سردی تھی، بڑے زور کا پالا پڑ رہا تھا، ہاتھ اٹھائے نہیں جاتے تھے اس لیے میں نے ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگی اور اسی حالت میں دعا مانگتے مانگتے مجھے نیند آ گئی خواب میں میں نے ایک حور کو دیکھا کہ اس جیسی خوبصورت نورانی شکل کبھی میری نگاہ سے نہیں گزری اس نے مجھ سے کہا: اے ابوسلیمان! ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگنے لگے اور یہ خیال نہیں کہ پانچ سو سال سے اللہ تعالیٰ مجھے تمہارے لیے اپنی خاص نعمتوں میں پرورش کر رہا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ «لام» متعلق «اَترَاباً» کے ہو یعنی ان کی ہم عمر ہوں گی جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودہویں رات جیسے روشن ہوں گے ان کے بعد والی جماعت کے بہت چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے۔ یہ پاخانے، پیشاب، تھوک، رینٹ سے پاک ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی ان کے پسینے مشک کی خوشبو والے ہوں گے ان کی انگیٹھیاں لؤلؤ کی ہوں گی ان کی بیویاں حورعین ہوں گی ان سب کے اخلاق مثل ایک ہی شخص کے ہوں گے، یہ سب اپنے باپ آدم علیہ السلام کی شکل پر ساٹھ ہاتھ کے لمبے قد کے ہوں گے ۔ [صحیح بخاری:3327]
طبرانی میں ہے اہل جنت بےبال اور بےریش، گورے رنگ والے، خوش خلق اور خوبصورت سرمگیں آنکھوں والے تینتیس برس کی عمر کے، سات ہاتھ لمبے اور سات ہاتھ چوڑے چکلے مضبوط بدن والے ہوں گے۔ [مسند احمد:295/2:حسن]
اس کا کچھ حصہ ترمذی میں بھی مروی ہے۔ [سنن ترمذي:2545،قال الشيخ الألباني:حسن] اور حدیث میں ہے کہ گو کسی عمر میں انتقال ہوا ہو دخول جنت کے وقت تینتیس سالہ عمر کے ہوں گے اور اسی عمر میں ہمیشہ رہیں گے، اسی طرح جہنمی بھی [سنن ترمذي:2562،قال الشيخ الألباني:حسن]
اور روایت میں ہے کہ ان کے قد سات ہاتھ فرشتے کے ہاتھ کے اعتبار سے ہوں گے قد آدم علیہ السلام، حسن یوسف علیہ السلام، عمر عیسیٰ علیہ السلام یعنی تینتیس سال اور زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یعنی عربی والے ہوں گے، بےبال اور سرمگیں آنکھوں والے [ابن ابی الدنیا:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ دخول جنت کے ساتھ ہی انہیں ایک جنتی درخت کے پاس لایا جائے گا اور وہاں انہیں کپڑے پہنائے جائیں گے ان کے کپڑے نہ گلیں، نہ سڑیں، نہ پرانے ہوں، نہ میلے ہوں ان کی جوانی نہ ڈھلے، نہ جائے، نہ فنا ہو۔ [ابونعیم فی صفةالجنة:255ضعیف]
اصحاب یمین گزشتہ امتوں میں سے بھی بہت ہیں اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیان فرمایا میرے سامنے انبیاء مع اپنے تابعدار امتیوں کے پیش ہوئے بعض نبی گزرتے تھے اور بعض نبی کے ساتھ ایک جماعت ہوتی تھی اور بعض نبی کے ساتھ صرف تین آدمی ہوتے تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی نہ تھا راوی حدیث قتادہ رحمہ اللہ نے اتنا بیان فرمایا کہ یہ آیت پڑھی «اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ» [11-ھود:78] کیا تم میں سے ایک بھی رشد و سمجھ والا نہیں؟ یہاں تک کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام گزرے جو بنی اسرائیل کی ایک بڑی جماعت ساتھ لیے ہوئے تھے، میں نے پوچھا: ”پروردگار یہ کون ہیں؟“ جواب ملا یہ تمہارے بھائی موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی تابعداری کرنے والی امت ہے، میں نے پوچھا: ”الٰہی پھر میری امت کہاں ہے؟“ فرمایا: اپنی داہنی جانب نیچے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو بہت بڑی جماعت نظر آئی لوگوں کے بکثرت چہرے دمک رہے تھے، پھر مجھ سے پوچھا: کہو اب تو خوش ہو، میں نے کہا: ”ہاں الٰہی میں خوش ہوں“، مجھ سے فرمایا: اب اپنی بائیں جانب کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا وہ وہاں بےشمار لوگ تھے پھر مجھ سے پوچھا اب تو راضی ہو گئے؟ میں نے کہا: ”ہاں میرے رب میں راضی ہوں“، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور سنو ان کے ساتھ ستر ہزار اور لوگ ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے یہ سن کر سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، یہ قبیلہ بنو اسد سے محصن کے لڑکے تھے بدر کی لڑائی میں موجود تھے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھے بھی انہی میں سے کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول! میرے لیے بھی دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ تجھ پر سبقت کر گئے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں اگر تم سے ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے بنو، جو بے حساب جنت میں جائیں گے، ورنہ کم سے کم دائیں جانب والوں میں سے ہو جاؤ گے، یہ بھی نہ ہو سکے تو کنارے والوں میں سے بن جاؤ، میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ اپنے حال میں ہی لٹک جاتے ہیں۔“ پھر فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی چوتھائی تعداد صرف تمہاری ہی ہو گی۔“ پس ہم نے تکبیر کہی پھر فرمایا: ”بلکہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت کی تہائی والے ہو گے۔“ ہم نے پھر تکبیر کہی۔ فرمایا: ”اور سنو! تم آدھوں آدھ اہل جنت کے ہو گے“، ہم نے پھر تکبیر کہی اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ» * «وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ» [56-الواقعة:39،40] کی تلاوت کی۔ اب ہم میں آپس میں مذاکرہ شروع ہو گیا کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے؟ پھر ہم نے کہا وہ لوگ جو اسلام میں پیدا ہوئے اور شرک کیا ہی نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیں لگواتے اور جھاڑ پھونک نہیں کرواتے اور فال نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں“۔ [مسند احمد:401/1:صحیح]
یہ حدیث بہت سی سندوں سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایت سے بہت سی کتابوں میں صحت کے ساتھ مروی ہے۔
ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آیت میں پہلوں پچھلوں سے مراد میری امت کے اگلے پچھلے ہی ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:646/11:ضعیف]