قرآن مجيد

سورة الواقعة
وَحُورٌ عِينٌ[22]
اور( ان کے لیے وہاں) سفید جسم، سیاہ آنکھوںوالی عورتیں ہیں ،جو فراخ آنکھوں والی ہیں۔[22]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 22، 23، 24، 25، 26،

حور العین ٭٭

«حور» کی دوسری قرأت «ر» کے زیر سے بھی ہے۔ پیش سے تو مطلب ہے کہ جنتیوں کے لیے حوریں ہوں گی اور زیر سے یہ مطلب ہے کہ گویا اگلے اعراب کی ماتحتی میں یہ اعراب بھی ہے جیسے «وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ» [5-المآئدہ:6] ‏‏‏‏ میں زبر کی قرأت ہے اور جیسے کہ «عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ» [76-الإنسان:21] ‏‏‏‏ ہیں۔

اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ غلمان اپنے ساتھ حوریں بھی لیے ہوئے ہوں گے لیکن ان کے محلات میں اور خیموں میں نہ کہ عام طور پر۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

یہ حوریں ایسی ہوں گی جیسے تروتازہ سفید صاف موتی ہوں، جیسے سورۃ الصافات میں ہے «كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ» [37-الصافات:49] ‏‏‏‏ سورۃ الرحمن میں بھی یہ وصف مع تفسیر گزر چکا ہے۔ یہ ان کے نیک اعمال کا صلہ اور بدلہ ہے یعنی یہ تحفے ان کی حسن کارگزاری کا انعام ہے۔

یہ جنت میں لغو بیہودہ بے معنی خلاف طبع کوئی کلمہ بھی نہ سنیں گے، حقارت اور برائی کا ایک لفظ بھی کان میں نہ پڑے گا، جیسے اور آیت میں ہے «لَّا تَسْمَعُ فِيْهَا لَاغِيَةً» [88-الغاشية:11] ‏‏‏‏ فضول کلامی سے ان کے کان محفوظ رہیں گے، نہ کوئی قبیح کلام کان میں پڑے گا۔

ہاں صرف سلامتی بھرے سلام کے کلمات ایک دوسروں کو کہیں گے، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا «تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ» [14-ابراھیم:23] ‏‏‏‏ ان کا تحفہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنا ہو گا۔ ان کی بات چیت لغویت اور گناہ سے پاک ہو گی۔