مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔[7]
مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادگی ہو حصہ سب کو ملے گا گو کم و بیش ہو۔
”ام کجہ“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول! میرے دو لڑکے ہیں ان کے والد فوت ہو گئے ہیں ان کے پاس اب کچھ نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی، یہی حدیث دوسرے الفاظ سے میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب ان شاءاللہ آئے گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو۔
ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس میں بھی دو قول ہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اسے باقی بتاتے ہیں مجاہد، ابن مسعود، ابوموسیٰ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر، ابوالعالیہ، شعبی، حسن، سعید بن جیر، ابن سیرین، عطاء بن ابو رباح، زہری، یحییٰ بن معمر رحمہ اللہ علیہم بھی باقی بتاتے ہیں، بلکہ یہ حضرات سوائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے وجوب کے قائل ہیں، [تفسیر ابن جریر الطبری:8/8]
سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک وصیت کے ولی تھے۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا، عروہ رحمہ اللہ نے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کے مال کی تقسیم کے وقت بھی دیا، زہری رحمہ اللہ کا بھی قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں۔
ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ وصیت پر موقوف ہے۔ چنانچہ جب سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی کا ہے تو گھر میں جتنے مسکین اور قرابت دار تھے سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا: اس نے ٹھیک نہیں کیا اس آیت سے تو مراد یہ ہے کہ جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو۔ (ابن ابی حاتم)
بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے مثلاً سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے۔ اور ناسخ آیت «يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ» الخ [4-النساء:11] ہے، حصے مقرر ہونے سے پہلے یہ حکم تھا پھر جب حصے مقرر ہو چکے اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے والا کہہ گیا ہو سعید بن مسیب رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے لیے ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ آیت منسوخ ہے، جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ مال وصیت کی تقسیم کے وقت جب میت کے رشتہ دار آ جائیں تو انہیں بھی دے دو اور یتیم مسکین جو آ گئے ہوں ان سے نرم کلامی اور اچھے جواب سے پیش آؤ، لیکن اس میں نظر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں تقسیم سے مراد یہاں ورثے کی تقسیم ہے، پس یہ قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کے خلاف ہے۔
ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب یہ غریب لوگ ترکے کی تقسیم کے وقت آ جائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے لے رہے ہو اور یہ بیچارے تک رہے ہوں تو انہیں بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤوف و رحیم کو اچھا نہیں لگتا بطور صدقہ کے راہ اللہ ان سے بھی کچھ اچھا سلوک کر دو تاکہ یہ خوش ہو کر جائیں۔
جیسے اور جگہ فرمان باری ہے کہ «كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ» [6-الأنعام:141] ، کھیتی کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو، اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے چھپا کر اپنے باغ کا پھل لانے والوں کی اللہ تعالیٰ نے بڑی مذمت فرمائی ہے۔
جیسے کہ سورۃ نون میں ہے کہ «أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ» * «فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ» * «أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ» * «وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ» * «فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ» * «بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ» [68-القلم:-27-22] ” وہ رات کے وقت چھپ کر پوشیدگی سے کھیت اور باغ کے دانے اور پھل لانے کے لیے چلتے ہیں وہاں اللہ کا عذاب ان سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور سارے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتا ہے دوسروں کے حق برباد کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے “۔
حدیث شریف میں ہے جس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جو شخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کا مال اس وجہ سے غارت ہو جاتا ہے۔ [بیہقی:159/4:ضعیف]
پھر فرماتا ہے ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت کے سننے والے کو چاہیئے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی رہنمائی کرے اس کے وارثوں کے لیے ایسی بھلائی چاہے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں ان کی عیادت کو گئے اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں، آپ نے فرمایا: ”نہیں“ انہوں نے کہا: پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا:”خیر لیکن ہے یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“ [صحیح بخاری:56]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگ ایک تہائی سے بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے۔ [صحیح بخاری:2743]
فقہاء فرماتے ہیں اگر میت کے وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے اور اگر فقیر ہوں تو اس سے کم کی وصیت کرنا مستحب ہے، دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم چاہتے ہو کہ تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں چاہتے کہ ان کے مال دوسرے ظلم سے کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے مال نہ کھا جاؤ، یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لیے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان فرمائی، کہ یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے اور جہنم واصل ہونے والے ہیں۔
بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں“ پوچھا گیا، کیا کیا؟ فرمایا:”اللہ کے ساتھ شرک، جادو، بےوجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے پیٹھ موڑنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا، [صحیح بخاری:2766]
ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے فرمایا کہ ”میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بری طرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:8725:ضعیف]
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ، آنکھوں، نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے۔ ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے قریب قریب مروی ہے۔ [مسند ابویعلیٰ:7440:ضعیف]
اور حدیث میں ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا، [سنن ابن ماجہ:3678]
ان کے مال سے بچو، سورۃ البقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا اناج پانی بھی الگ کر دیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے کوئی اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا ہے اس پر آیت «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ» [2-البقرة:220] اتری جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چنانچہ اس کے بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا۔ [سنن ابوداود:2871،قال الشيخ الألباني:صحیح]