«واقعہ» قیامت کا نام ہے کیونکہ اس کا ہونا یقینی امر ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ» [69-الحاقة:15] ” اس دن ہو پڑے گی “، اس کا واقعہ ہونا حتمی امر ہے، نہ اسے کوئی ٹال سکے، نہ ہٹا سکے، وہ اپنے مقررہ وقت پر آ کر ہی رہے گی۔
جیسے اور آیت میں ہے «اِسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ» [42-الشورى:47] ” اپنے پروردگار کی باتیں مان لو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں “۔
اور جگہ فرمایا «سَاَلَ سَاىِٕلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ» [70-المعارج:1] ” سائل کا سوال اس کے متعلق ہے جو یقیناً آنے والا ہے “، جسے کوئی روک نہیں سکتا۔
یقینی امر ٭٭
اور آیت میں ہے «وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ» [6-الانعام:73] ” جس دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گی۔ وہ عالم غیب و ظاہر ہے اور وہ حکیم و خبیر ہے “۔
قیامت «کاذبہ» نہیں یعنی برحق ہے ضرور ہونے والی ہے اس دن نہ تو دوبارہ آنا ہے، نہ وہاں سے لوٹنا ہے، نہ واپس آنا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:622/11]
«کاذبہ» مصدر ہے جیسے «عاقبۃ» اور «عافیہ» وہ دن پست کرنے والا اور ترقی دینے والا ہے، بہت لوگوں کو پست کر کے جہنم میں پہنچا دے گا، جو دنیا میں بڑے ذی عزت و وقعت تھے اور بہت سے لوگوں کو وہ اونچا کر دے گا، اعلیٰ علیین ہو کر جنتی ہو جائیں گے، متکبرین کو وہ ذلیل کر دے گی اور متواضعین کو وہ عزیز کر دے گی، وہی نزدیک و دور والوں کو سنا دے گی اور ہر اک کو چوکنا کر دے گی، وہ نیچا کرے گی اور قریب والوں کو سنائے گی، پھر اونچی ہو گی اور دور والوں کو سنائے گی، زمین ساری کی ساری لرزنے لگے گی، چپہ چپہ کپکپانے لگے گا، طول و عرض زمین میں زلزلہ پڑ جائے گا، اور بےطرح ہلنے لگے گی، یہ حالت ہو جائے گی کہ گویا چھلنی میں کوئی چیز ہے جسے کوئی ہلا رہا ہے اور آیت میں ہے «اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا» ۔ [99-الزلزلة:1]
اور جگہ ہے «يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ» [22-الحج:1] ” لوگو اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے “۔
پھر فرمایا کہ پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور جگہ «يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا» [73-المزمل:14] آئے ہیں، پس وہ مثل غبار پریشان کے ہو جائیں گے جسے ہوا ادھر ادھر بکھیر دے اور کچھ نہ رہے۔
«هَبَاءً» ان شراروں کو بھی کہتے ہیں جو آگ جلاتے وقت پتنگوں کی طرح اڑتے ہیں، نیچے گرنے پر وہ کچھ نہیں رہتے۔
«مُنْبَث» اس چیز کو کہتے ہیں جسے ہوا اوپر کر دے اور پھیلا کر نابود کر دے جیسے خشک پتوں کے چورے کو ہوا ادھر سے ادھر کر دیتی ہے۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی بہت سی ہیں، جن سے ثابت ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائیں گے، ٹکڑے ہو جائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام و نشان ہو جائیں گے۔
لوگ اس دن تین قسموں میں منقسم ہو جائیں گے۔ ایک جماعت عرش کے دائیں ہو گی اور یہ لوگ وہ ہوں گے جو آدم کی دائیں کروٹ سے نکلے تھے نامہ اعمال داہنے ہاتھ دیئے جائیں گے اور دائیں جانب چلائے جائیں گے، یہ جنتیوں کا عام گروہ ہے۔
دوسری جماعت عرش کے بائیں جانب ہو گی یہ وہ لوگ ہوں گے جو آدم کی بائیں کروٹ سے نکالے گئے تھے، انہیں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے گئے تھے اور بائیں طرف کی راہ پر لگائے گئے تھے۔ یہ سب جہنمی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ «آمین»
تیسری جماعت اللہ عزوجل کے سامنے ہو گی یہ خاص الخاص لوگ ہیں، یہ اصحاب «یمین» سے بھی زیادہ باوقعت اور خاص قرب کے مالک ہیں۔ یہ اہل جنت کے سردار ہیں ان میں رسول علیہ السلام ہیں، انبیاء علیہ السلام ہیں، صدیق و شہداء ہیں۔ یہ تعداد میں دائیں ہاتھ والوں کی بہ نسبت کم ہیں۔
پس تمام اہل محشر کی تین قسمیں ہو جائیں گی جیسے کہ اس سورت کے آخر میں بھی اختصار کے ساتھ ان کی یہی تقسیم کی گئی ہے۔ اسی طرح سورۃ فاطر میں فرمایا ہے «ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ» [35-فاطر:32] یعنی ” پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنے چیدہ بندوں کو بنایا پس ان میں سے بعض تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ روش ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں کی طرف آگے بڑھنے والے ہیں “۔ پس یہاں بھی تین قسمیں ہیں یہ اس وقت جبکہ آیت «ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ» [35-فاطر:32] کی وہ تفسیر لیں جو اس کے مطابق ہے، ورنہ ایک دوسرا قول بھی ہے جو اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر گزر چکا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ دو گروہ تو جنتی اور ایک جہنمی۔
ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ» [81-التكوير:7] ” جب لوگوں کے جوڑے ملائے جائیں “، فرمایا: قسم قسم کی یعنی ہر عمل کے عامل کی ایک جماعت۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم تین قسم پر ہو جاؤ گے، یعنی اصحاب یمین، اصحاب شمال اور سابقین۔
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر لیں اور فرمایا: ”یہ جنتی ہیں، مجھے کوئی پرواہ نہیں، یہ سب جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔“ [مسند احمد:239/5:ضعیف]
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو اللہ تعالیٰ کے سائے کی طرف قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ جو جب اپنا حق دیئے جائیں تو قبول کر لیں اور جو حق ان پر ہو جب مانگا جائے ادا کر دیں اور لوگوں کے لیے بھی وہی حکم کریں جو خود اپنے لیے کرتے ہیں۔“ [مسند احمد:69/6:ضعیف]
«سابقین» کون لوگ ہیں؟ اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں، مثلاً انبیاء علیہ السلام، اعلٰی علیین، یوشع بن نون جو موسیٰ علیہ السلام پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے، وہ مومن جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے، جو عیسیٰ علیہ السلام پر پہلے ایمان لائے تھے، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سبقت کر گئے تھے، وہ لوگ جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی، ہر امت کے وہ لوگ جو اپنے اپنے نبیوں پر پہلے پہل ایمان لائے تھے، وہ لوگ جو مسجد میں سب سے پہلے جاتے ہیں، جو جہاد میں سب سے آگے نکلتے ہیں۔ یہ سب اقوال دراصل صحیح ہیں یعنی یہ سب لوگ سابقین ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان کو آگے بڑھ کر دوسروں پر سبقت کر کے قبول کرنے والے سب اس میں داخل ہیں، قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ» [3-آل عمران:133] ” اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کا عرض مثل آسمان و زمین کے ہے “، پس جس شخص نے اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں اللہ کی نعمتوں کی طرف بھی سابق ہی رہے گا، ہر عمل کی جزا اسی جنس سے ہوتی ہے، جیسا جو کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے، اسی لیے یہاں ان کی نسبت فرمایا گیا یہ مقربین اللہ ہیں یہ نعمتوں والی جنت میں ہیں۔
ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرشتوں نے اللہ کی جناب میں عرض کی کہ پروردگار! تو نے ابن آدم کے لیے تو دنیا بنا دی ہے وہ وہاں کھاتے پیتے ہیں اور بیوی بچوں سے لطف اٹھاتے ہیں پس ہمارے لیے آخرت کر دے جواب ملا کہ میں ایسا نہیں کروں گا، انہوں نے تین مرتبہ یہی دعا کی، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے جسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اسے ان جیسا ہرگز نہ کروں گا جنہیں میں نے صرف لفظ «کن» سے پیدا کیا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی اس اثر کو اپنی کتاب «الرد علی الجہمیہ» میں وارد کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اس کی نیک اولاد کو میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہا ہو جا تو وہ ہو گیا۔