قرآن مجيد

سورة الرحمٰن
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ[77]
تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟[77]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 70، 71، 72، 73، 74، 75، 76، 77، 78،

جنت کی نعمتیں ٭٭

ایک اور حدیث میں ہے کہ حورعین جو گانا گائیں گی ان میں یہ بھی ہو گا ہم خوش خلق خوبصورت ہیں، جو بزرگ خاوندوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں، یہ پوری حدیث سورۃ الواقعہ کی تفسیر میں ابھی آئے گی۔ «ان شاء اللہ تعالیٰ»

یہ لفظ تشدید سے بھی پڑھا گیا ہے۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو؟ حوریں جو خیموں میں رہتی ہيں، یہاں بھی وہی فرق ملاحظہ ہو کہ وہاں تو فرمایا تھا کہ خود وہ حوریں اپنی نگاہ نیچی رکھتی ہیں اور یہاں فرمایا ان کی نگاہیں نیچی کی گئی ہیں، پس اپنے آپ ایک کام کرنا اور دوسرے سے کرایا جانا ان دونوں میں کس قدر فرق ہے، گو پردہ دونوں صورتوں میں حاصل ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر مسلمان کے لیے خیرہ یعنی نیک اور بہترین نورانی حور اور ہر خیرہ کے لیے خیمہ ہے اور خیمہ کے چار دروازے ہیں جن میں سے ہر روز تحفہ کرامت ہدیہ اور انعام آتا رہتا ہے۔ نہ وہاں کوئی فساد ہے، نہ سختی، نہ گندگی، نہ بدبو۔ حوروں کی صحبت ہے جو اچھوتے صاف سفید چمکیلے موتیوں جیسی ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جنت میں ایک خیمہ ہے درمجوف، جس کا عرض ساٹھ میل کا ہے اس کے ہر ہر کونے میں جنتی کی بیویاں ہیں جو دوسرے کونے والیوں کو نظر نہیں آتیں مومن ان سب کے پاس آتا جاتا رہے گا۔ [صحیح بخاری:4879] ‏‏‏‏

دوسری روایت میں چوڑائی کا تیس میل ہونا مروی ہے، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے- سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خیمہ ایک ہی لؤلؤ کا ہے جس میں ستر دروازے موتی کے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت میں ایک خیمہ ہو گا جو ایک موتی کا بنا ہوا ہو گا، چار فرسخ چوڑا، جس کے چار ہزار دروازے ہوں گے اور چوکھٹیں کی سونے کی ہوں گی۔

ایک مرفوع حدیث میں ہے ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی [80] ‏‏‏‏ ہزار خادم ہوں گے اور بہتر [72] ‏‏‏‏ بیویاں ہوں گی اور لؤلؤ زبرجد کا محل ہو گا جو جابیہ سے صنعا تک پہنچے۔ [سنن ترمذي:2562،قال الشيخ الألباني:ضعيف] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ان بےمثل حسینوں کے پنڈے اچھوتے ہیں کسی جن و انس کا گزر ان کے پاس سے نہیں ہوا۔ پہلے بھی اس قسم کی آیت مع تفسیر گزر چکی ہے، ہاں پہلے جنت کی حوروں کے اوصاف میں اتنا جملہ وہاں تھا کہ وہ یاقوت و مرجان جیسی ہیں، یہاں ان کے لیے یہ نہیں فرمایا گیا، پھر سوال ہوا کہ تمہيں رب کی کس کس نعمت کا انکار ہے؟ یعنی کسی نعمت کا انکار نہ کرنا چاہیئے، یہ جنتی سبز رنگ، اعلیٰ قیمتی فرشوں، غالیچوں اور تکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے، تخت ہوں گے اور تختوں پر پاکیزہ اعلیٰ فرش ہوں گے اور بہترین منقش تکئے لگے ہوئے ہوں گے، یہ تخت، یہ فرش، یہ تکئے جنت کے باغیچوں اور ان کی کیاریوں پر ہوں گے اور یہی ان کے فرش ہوں گے، کوئی سرخ رنگ ہو گا، کوئی زرد رنگ اور کوئی سبز رنگ، جنتیوں کے کپڑے بھی ایسے ہی اعلیٰ اور بالا ہوں گے، دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے انہیں تشبیہ دی جا سکے، یہ بسترے مخملی ہوں گے، جو بہت نرم اور بالکل خالص ہوں گے، کئی کئی رنگ کے ملے جلے نقش ان میں بنے ہوئے ہوں گے،

ابوعبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبقر ایک جگہ کا نام ہے جہاں منقش بہترین کپڑے بنے جاتے تھے، خلیل بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر نفیس اور اعلیٰ چیز کو عرب عبقری کہتے ہیں۔

چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا میں نے کسی عبقری کو نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کے بڑے بڑے ڈول کھینچتا ہو۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:3682] ‏‏‏‏

یہاں یہ بھی خیال فرمائیے کہ پہلی دو جنتوں کے فرش و فروش اور وہاں کے تکیوں کی جو صفت بیان کی گئی ہے وہ ان سے اعلیٰ ہے، وہاں بیان فرمایا گیا تھا کہ ان کے استر یعنی اندر کا کپڑا خالص دبیز ریشم ہو گا پھر اوپر کے کپڑے کا بیان نہیں ہوا تھا اس لیے کہ جس کا استر اتنا اعلیٰ ہے اس کے ابرے یعنی اوپر کے کپڑے کا تو کہنا ہی کیا ہے؟

پھر اگلی دو جنتوں کے اوصاف کے خاتمے پر فرمايا تھا کہ اطاعت کا صلہ سوا عنايت کے اور کيا ہو سکتا ہے؟ تو اہل جنت کے اوصاف میں احسان کو بیان فرمایا جو اعلیٰ مرتبہ اور غایت ہے۔

جیسے کہ جبرائیل عليہ السلام والی حدیث میں ہے کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے ميں، پھر احسان کے بارے میں، پس یہ کئی کئی وجوہ ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کی دو جنتوں کو ان دو جنتوں پر بہترین فضیلت حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کریم و وہاب سے ہمارا سوال ہے کہ وہ ہمیں بھی ان جنتیوں میں سے کرے جو ان دو جنتوں میں ہوں گے جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے ہیں۔ «آمین»

وہی مستحق احترام و اکرام ہے ٭٭

پھر فرماتا ہے تیرے رب ذوالجلال والاکرام کا نام بابرکت ہے وہ جلال والا ہے یعنی اس لائق ہے کہ اس کا جلال مانا جائے اور اس کی بزرگی کا پاس کر کے اس کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ کامل اطاعت گزاری کی جائے اور وہ اس قابل ہے کہ اس کا اکرام کیا جائے یعنی اس کی عبادت کی جائے اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اسے بھلایا نہ جائے۔ وہ عظمت اور کبریائی والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا اجلال کرو اس کی عظمت کو مانو وہ تمہیں بخش دے گا۔ [مسند احمد:199/5،ضعیف] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت ماننے میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کی اور بادشاہ کی اور عامل قرآن جو قرآن میں کمی زیادتی نہ کرتا ہو یعنی نہ اس میں غلو کرتا ہو نہ کمی کرتا ہو عزت کی جائے۔ [سنن ابوداود:4843،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

ابویعلی میں ہے «یا ذَالجَلالِ وَ اْلاِکْرام» ‏‏‏‏ کے ساتھ چمٹ جاؤ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی سند کو غیر محفوظ اور غریب بتاتے ہیں [سنن ترمذي:3525،قال الشيخ الألباني:صحيح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے اس میں «یا» کا لفظ نہیں [مسند احمد:177/4،حسن] ‏‏‏‏

جوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی کسی کو چمٹ جائے اسے تھام لے تو عرب کہتے ہیں «اَلَظَّ» ‏‏‏‏ یہی لفظ اس حدیث میں آیا ہے، تو مطلب یہ ہے کہ الحاح و خلوص عاجزی اور مسکینی کے ساتھ ہمیشگی اور لزوم سے دامن الہیہ میں لٹک جاؤ

صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد صرف اتنی ہی دیر بیٹھتے تھے کہ یہ کلمات کہہ لیں «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَباَرَکْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ»

«الحمداللہ» اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ الرحمن کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے۔