قرآن مجيد

سورة الرحمٰن
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ[69]
تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟[69]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 68، 69،

جنت کے میوے ٭٭

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سبز، محمد بن کعب فرماتے ہیں سبزی سے پُر، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس قدر پھل پکے ہوئے تیار ہیں کہ وہ ساری جنت سر سبز معلوم ہو رہی ہے، الغرض وہاں شاخوں کی پھیلاوٹ بیان ہوئی یہاں درختوں کی کثرت بیان فرمائی گئی تو ظاہر ہے کہ اس میں اور اس میں بھی بہت فرق ہے، ان کی نہروں کی بابت لفظ «تَجْرِيَانِ» ‏‏‏‏ ہے اور یہاں لفظ «نَضَّاخَتٰنِ» ہے یعنی ابلنے والی، اور یہ ظاہر ہے کہ «نضخ» سے «جری» یعنی ابلنے سے بہنا بہت برتری والا ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی پُر ہیں، پانی رکتا نہیں اور لیجئے وہاں فرمایا تھا کہ ہر قسم کے میووں کے جوڑے ہیں اور یہاں فرمایا اس میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں تو ظاہر ہے کہ پہلے کے الفاظ عمومیت کے لیے ہوئے ہیں وہ قسم کے اعتبار سے اور کمیت کے اعتبار سے بھی اس سے افضیلت رکھتے ہیں، کیونکہ یہاں لفظ «‏‏‏‏فَاكِهَة» گو نکرہ ہے لیکن سیاق میں اثبات کے ہے اس لیے عام نہ ہو گا، اسی لیے بطور تفسیر کے بعد میں «‏‏‏‏نَخْلٌ وَرُمَّانٌ» کہہ دیا۔ جیسے عطف خاص عام پر ہوتا ہے-

امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ کھجور اور انار کو «خاصۃ» اس لیے ذکر کیا کہ اور میووں پر انہیں شرف ہے۔

مسند عبد بن حمید میں ہے یہودیوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا جنت میں میوے ہیں؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: ہاں ہیں، انہوں نے پوچھا کیا جنتی دنیا کی طرح وہاں بھی کھائیں گے پئیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں بلکہ بہت کچھ زیادہ اور بہت کچھ زیادہ، انہوں نے کہا پھر وہاں فضلہ بھی نکلے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں بلکہ پسینہ آ کر سب ہضم ہو جائے گا۔‏‏‏‏ [ضعيف الترغيب:242/2،قال الشيخ الألباني:ضعيف] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جنتی کھجور کے درختوں کے ریش کا جنتیوں کا لباس بنائیں گے۔ یہ سرخ رنگ سونے کے ہوں گے، اس کے تنے سبز زمردیں ہوں گے، اس کے پھل شہد سے زیادہ میٹھے اور مکھن سے زیادہ نرم ہوں گے، گٹھلی بالکل نہ ہو گی۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ میں نے جنت کے انار دیکھے اتنے بڑے تھے جیسے اونٹ مع ہودج [ضعيف] ‏‏‏‏- «خیرات» کے معنی بہ کثرت اور بہت حسین نہایت نیک خلق اور بہتر خلق- ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ معنی مروی ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33172،ضعيف] ‏‏‏‏