اور اگر تم ڈروکہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے، یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں (یعنی لونڈیاں)۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔[3]
اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہوں انہیں سونپ دو، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ؟
تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو، پہلے لوگ ایسا کر لیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کر دی، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کے اب امتیاز کیا ہے؟ ان کے مال تلف نہ کرو، یہ بڑا گناہ ہے، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے کے مروی ہیں [تفسیر ابن جریر الطبری:525/7:ضعیف]
ابوداؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی «حوب» کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے [سنن ابوداود:3892،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے، [طبرانی کبیر:136/25:ضعیف] چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے، ایک روایت میں یہ واقعہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مروی ہے۔ [مستدرک حاکم:302/2:ضعیف]
پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لیے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کر لو۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی [صحیح بخاری:4573]
صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا: بھانجے، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت کو چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کر لے، پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت «وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ» [4-النساء:127] نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بیرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیں۔ [صحیح بخاری:4574]
ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں نکاح کر لیں اگر چاہیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں، فرماتا ہے: «الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ» [35- فاطر:1] الخ یعنی ” جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں “ کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے۔
لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جمہور کا قول ہے، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کا بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے۔
البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں، بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں، ان کا استدلال ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں [صحیح بخاری:5067] اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے۔ [صحیح بخاری:267]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں [بیہقی:289:مرسل]
ہمارے علماء کرام رحمہ اللہ علیہم اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں پاس رکھنے کی اجازت نہیں، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں، سیدنا غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر سیدنا رضی اللہ عنہ عمر کی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا ہے کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لیے اپنی بیویوں کو تو نے بھی الگ کر دیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کر لے اور اپنی اولاد سے مال واپس لے لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں [سنن ترمذي:1128،قال الشيخ الألباني:صحیح] (مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دارقطنی بیہقی وغیرہ)
مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے، اگرچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو۔ [بیہقی:183/7:حسن]
اس حدیث سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہیئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھیں اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے؟ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَىٰ اَعْلَمُ با الصواب»
چار سے زائد نہیں، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی! ٭٭
دوسری حدیث ابوداؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے سیدنا عمیرہ اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا: ”ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو“ [سنن ابوداود:2241/2242،قال الشيخ الألباني:صحیح] اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا
تیسری حدیث مسند شافعی میں ہے سیدنا نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو“ میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی [مسند شافعی:16/2:]
پس یہ حدیثیں سیدنا غیلان رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ امام بیہقی نے فرمایا۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو۔
جیسے اور جگہ ہے «وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ» [4-النساء:129] یعنی ” گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو “، ہاں یاد رہے کہ لونڈیوں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں۔
اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت «وَإِنْ خِفْتُمْ» » [9-التوبة:29] یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو۔
عربی شاعر کہتا ہے: «فما یدری الفقیر متی غناہ ... وما یدری الغنی متی یعیل» یعنی ”فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہو جائے گا ... اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا“
جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے تو عرب کہتے ہیں «عال الرجل» یعنی ”یہ شخص فقیر ہو گیا“ غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے۔
پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ، عرب میں کہا جاتا ہے «عال فی الحکم» جبکہ ظلم و جور کیا ہو، ابوطالب کے مشہور قصیدے میں ہے۔ «بمیزان قسط لا یخیس شعیرۃ» ... لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل» بہترین ترازو ضمیر ہے یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے۔
ابن جریر میں ہے کہ جب کوفیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ایک میں خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ «إِني لسْتُ بميزانٍ لا أَعُول» میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو [صحیح ابنvحبان:134/6]
ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے اسی طرح «لا تعولوا» کے یہی معنی ہیں یعنی تم ظلم نہ کرو۔ سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدہ عائشہ، رضی اللہ عنہما مجاہد، عکرمہ، حسن، ابو مالک، ابو زرین، نخعی، شعبی، ضحاک، عطاء خراسانی، قتادہ، سدی اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم [تفسیر ابن جریر الطبری:549/7-515] وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔ عکرمہ رحمہ اللہ نے بھی ابوطالب کا وہی شعر پیش کیا ہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشک مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال، طیب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو [تفسیر ابن جریر الطبری:553/7]
ابن ابی حاتم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہیئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت «فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا» [4-النساء:4] تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی۔
ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا (ابن ابی حاتم اور ابن جریر) اس حکم کو سن کر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہیئے؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہو جائیں [بیہقی:239/7:مرسل و ضعیف] (ابن ابی حاتم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ ”بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو“، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں“ [بیہقی:239/7:منقطع و ضعیف] اس کے ایک راوی ابن بیلمانی ضعیف ہیں، پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔