پھر فرماتا ہے آسمان کو اس نے بلند کیا ہے اور اسی میں میزان قائم کی ہے یعنی عدلʻ جیسے اور آیت میں ہے «لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ» [57-الحديد:25] یعنی ” یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں “ یہاں بھی اس کے ساتھ ہی فرمایا تاکہ تم ترازو میں حد سے نہ گزر جاؤ یعنی اس اللہ نے آسمان و زمین کو حق اور عدل کے ساتھ پیدا کیا تاکہ تمام چیزیں حق و عدل کے ساتھ ہو جائیں۔
پس فرماتا ہے جب وزن کرو تو سیدھی ترازو سے عدل و حق کے ساتھ وزن کرو کمی زیادتی نہ کرو کہ لیتے وقت بڑھتی تول لیا اور دیتے وقت کم دے دیا۔
اور جگہ ارشاد ہے «وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ» [26-الشعراء:182] صحت کے ساتھ کھرے پن سے تول کیا کرو، آسمان کو تو اس نے بلند و بالا کیا اور زمین کو اس نے نیچی اور پست کر کے بچھا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ مثل میخ کے گاڑ دئیے کہ وہ ہلے جلے نہیں اور اس پر جو مخلوق بستی ہے وہ باآرام رہے۔ پھر زمین کی مخلوق کو دیکھو ان کی مختلف قسموں، مختلف شکلوں، مختلف رنگوں، مختلف زبانوں، مختلف عادات واطوار پر نظر ڈال کر اللہ کی قدرت کاملہ کا اندازہ کرو۔ ساتھ ہی زمین کی پیداوار کو دیکھو کہ رنگ برنگ کے کھٹے میٹھے، پھیکے سلونے طرح طرح کی خوشبوؤں والے میوے پھل فروٹ اور خاصۃً کھجور کے درخت جو نفع دینے والا اور لگنے کے وقت سے خشک ہو جانے تک اور اس کے بعد بھی کھانے کے کام میں آنے والا عام میوہ ہے، اس پر خوشے ہوتے ہیں جنہیں چیر کر یہ باہر آتا ہے پھر گدلا ہو جاتا ہے پھر تر ہو جاتا ہے پھر پک کر ٹھیک ہو جاتا ہے بہت نافع ہے، ساتھ ہی اس کا درخت بالکل سیدھا اور بےضرر ہوتا ہے۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ قیصر نے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ میرے قاصد جو آپ کے پاس سے واپس آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کی سی خو خصلت کسی اور میں نہیں، وہ جانور کے کان کی طرح زمین سے نکلتا ہے پھر کھل کر موتی کی طرح ہو جاتا ہے پھر سبز ہو کر زمرد کی طرح ہو جاتا ہے، پھر سرخ ہو کر یاقوت جیسا بن جاتا ہے اور تیار ہو کر بہترین فالودے کے مزے کا ہو جاتا ہے، پھر خشک ہو کر مقیم لوگوں کے بچاؤ کی اور مسافروں کے توشے بھتے کی چیز بن جاتا ہے، پس اگر میرے قاصد کی یہ روایت صحیح ہے تو میرے خیال سے تو یہ درخت جنتی درخت ہے۔ اس کے جواب میں شاہ اسلام سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ یہ خط ہے اللہ کے غلام مسلمانوں کے بادشاہ عمر کی طرف سے شاہ روم قیصر کے نام، آپ کے قاصدوں نے جو خبر آپ کو دی ہے وہ سچ ہے اس قسم کے درخت ملک عرب میں بکثرت ہیں یہی وہ درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مریم عليها السلام کے پاس اگایا تھا جبکہ ان کے لڑکے عیسیٰ عليہ السلام ان کے بطن سے پیدا ہوئے تھے پس اے بادشاہ! اللہ سے ڈر اور عیسیٰ عليہ السلام کو اللہ نہ سمجھ اللہ ايک ہی ہے۔ عیسیٰ عليہ السلام کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم عليہ السلام جیسی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گئے، اللہ کی طرف سے سچی اور حق بات یہی ہے، تجھے چاہیئے کہ شک و شبہ کرنے والوں میں نہ رہے۔ [3-آل عمران:59-60]
«اَکَمَامِ» کے معنی «لیف» کے بھی کئے گئے ہیں جو درخت کھجور کی گردن پر پوست کی طرح ہوتا ہے اور اس نے زمین میں بھوسی اور اناج پیدا کیا۔
«عَصف» کے معنی کھیتی کے وہ سبز پتے جو اوپر سے کاٹ دئیے گئے ہوں پھر سکھا لئے گئے ہوں۔
«رَ̛يحان» سے مراد پتے يا يہی ريحان جو اسی نام سے مشہور ہے یا کھیتی کے سبز پتے، مطلب یہ ہے کہ گیہوں جو وغیرہ کے وہ دانے جو خوشہ میں بھوسی سمیت ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھیتی سے پہلے ہی اگے ہوئے پتوں کو تو «عَصف» کہتے ہیں اور جب دانے نکل آئیں بالیں پیدا ہو جائیں تو انہیں «رَ̛يحان» کہتے ہیں جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل کے مشہور قصیدے میں ہے۔
پھر فرماتا ہے، اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے یعنی تم اس کی نعمتوں ميں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہو اور مالا مال ہو رہے ہو، ناممکن ہے کہ حقیقی طور پر تم کسی نعمت کا انکار کر سکو اور اسے جھوٹ بتا سکو، ایک دو نعمتیں ہوں تو خیر یہاں تو سر تا پا اس کی نعمتوں سے دبے ہوئے ہو، اسی لیے مومن جنوں نے اسے سن کر جھٹ سے جواب دیا «اللھم ولا بشئی من الائک ربنا نکذب فلک الحمد» ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے «لا فایھا یارب» یعنی اے رب! ہم ان میں سے کسی نعمت کا انکار نہیں کر سکتے۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ شروع شروع رسالت کے زمانہ میں ابھی امر اسلام کا پوری طرح اعلان نہ ہوا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ میں رکن کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں اس سورت کی تلاوت فرما رہے تھے اور مشرکین بھی سن رہے تھے۔