بدکار لوگ گمراہ ہو چکے ہیں راہ حق سے بھٹک چکے ہیں اور شکوک و اضطراب کے خیالات میں ہیں۔ یہ لوگ خواہ کفار ہوں، خواہ اور فرقوں کے بدعتی ہوں۔ ان کا یہ فعل انہیں اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹوائے گا اور جس طرح یہاں غافل ہیں وہاں اس وقت بھی بے خبر ہوں گے کہ نہ معلوم کس طرف لیے جاتے ہیں۔ اس وقت انہیں ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کہا جائے گا کہ اب آتش دوزخ کے لگنے کا مزہ چکھو ہم نے ہر چیز کو طے شدہ منصوبہ سے پیدا کیا ہے۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً» [25-الفرقان:2] ” ہر چیز کو ہم نے پیدا کیا پھر اس کا مقدر مقرر کیا “۔
اور جگہ فرمایا «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» * «الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى» * «وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى» [87-سورةالأعلى:1-3] ” اپنے رب کی جو بلند و بالا ہے پاکی بیان کر جس نے پیدا کیا اور درست کیا اور محور عمل مقرر کیا اور راہ دکھائی “۔
یعنی تقدیر مقرر کی پھر اس کی طرف رہنمائی کی ائمہ اہل سنت نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر ان کی پیدائش سے پہلے ہی لکھ دی ہے یعنی ہر چیز اپنے ظہور سے پہلے اللہ کے ہاں لکھی جا چکی ہے۔
فرقہ قدریہ اس کا منکر ہے یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخر زمانہ میں ہی نکل چکے تھے۔ اہل سنت ان کے مسلک کے خلاف اس قسم کی آیتوں کو پیش کرتے ہیں اور اس مضمون کی احادیث بھی اور اس مسئلہ کی مفصل بحث میں ہم نے صحیح بخاری کتاب الایمان کی شرح میں لکھ دی ہیں یہاں صرف وہ حدیثیں لکھتے ہیں جو مضمون آیت کے متعلق ہیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مشرکین قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقدیر کے بارے میں بحث کرنے لگے اس پر یہ آیتیں اتریں [صحیح مسلم:6696]
بروایت «عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ» مروی ہے کہ یہ آیتیں منکرین تقدیر کی تردید ہی میں اتری ہیں۔ [مسند بزار:2265ضعیف]
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا: ”یہ میری امت کے ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے اور تقدیر کو جھٹلائیں گے“۔ [طبرانی کبیر:5316صحیح]
عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا آپ اس وقت چاہ زمزم سے پانی نکال رہے تھے، آپ کے کپڑوں کے دامن بھیگے ہوئے تھے، میں نے کہا تقدیر کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے، لوگ اس مسئلہ میں موافق و مخالف ہو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا لوگوں نے واقعی ایسا ہی کیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں ایسا ہو رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ آیتیں انہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں «يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ» * «إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ» ۔ [54-سورةالقمر:48،49]
یاد رکھو یہ لوگ اس امت کے بدترین لوگ ہیں ان کے بیماروں کی تیمارداری نہ کرو ان کے مردوں کے جنازے نہ پڑھو ان میں سے اگر کوئی مجھے مل جائے تو میں اپنی ان انگلیوں سے اس کی آنکھیں نکال دوں ۔
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے ذکر آیا کہ آج ایک شخص آیا ہے جو منکر تقدیر ہے فرمایا: اچھا مجھے اس کے پاس لے چلو، لوگوں نے کہا: آپ نابینا ہیں، آپ اس کے پاس چل کر کیا کریں گے؟ فرمایا: اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میرا بس چلا تو میں اس کی ناک توڑ دوں گا اور اگر اس کی گردن میرے ہاتھ میں آ گئی تو مروڑ دوں گا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بنو فہر کی عورتیں خزرج کے اردگرد طواف کرتی پھرتی ہیں ان کے جسم حرکت کرتے ہیں وہ مشرکہ عورتیں ہیں اس امت کا پہلا شرک یہی ہے اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی بےسمجھی یہاں تک بڑھے گی کہ اللہ تعالیٰ کو بھلائی کا مقرر کرنے والا بھی نہ مانیں گے جس طرح برائی کا مقدر کرنے والا نہ مانا ۔ [مسند احمد:333/1:ضعیف]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک دوست شامی تھا، جس سے آپ کی خط و کتابت تھی، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہیں سے سن پایا کہ وہ تقدیر کے بارے میں کچھ موشگافیاں کرتا ہے، آپ نے جھٹ سے اسے خط لکھا کہ میں نے سنا ہے تو تقدیر کے مسئلہ میں کچھ کلام کرتا ہے، اگر یہ سچ ہے تو بس مجھ سے خط و کتابت کی امید نہ رکھنا، آج سے بند سمجھنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میری امت میں تقدیر کو جھٹلانے والے لوگ ہوں گے ۔ [سنن ابوداود:4613،قال الشيخ الألباني:حسن]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں میری امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہوں اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے نہ پڑھو ۔ [مسند احمد:86/2:ضعیف]
اس امت میں مسخ ہو گا یعنی لوگوں کی صورتیں بدل دی جائیں گی یاد رکھو یہ ان میں ہو گا جو تقدیر کو جھٹلائیں اور زندیقیت کریں ۔ [سنن ترمذي:2153،قال الشيخ الألباني:حسن]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر ایک کی تقدیر مقرر کردہ اندازے سے ہے یہاں تک کہ نادانی اور عقلمندی بھی۔“ [صحیح مسلم:2655]
صحیح حدیث میں ہے اللہ سے مدد طلب کر اور عاجز و بیوقوف نہ بن، پھر اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو کہہ دے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تھا اور جو اللہ نے چاہا کیا پھر یوں نہ کہہ کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوتا اس لیے کہ اس طرح ”اگر“ کہنے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ [صحیح مسلم:2664]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ جان رکھ اگر تمام امت جمع ہو کر تجھے وہ نفع پہنچانا چاہے جو اللہ تعالیٰ نے تیری قسمت میں نہیں لکھا تو نہیں پہنچا سکتی اور اگر سب اتفاق کر کے تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں اور تیری تقدیر میں وہ نہ ہو تو نہیں پہنچا سکتے، قلمیں خشک ہو چکیں اور دفتر لپیٹ کر تہہ کر دئیے گئے ۔ [مسند احمد:293/1]
سیدنا ولید بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیماری میں جبکہ ان کی حالت بالکل غیر تھی کہا کہ ابا جی! ہمیں کچھ وصیت کر جائیے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا مجھے بٹھا دو، جب لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا، تو آپ نے فرمایا: اے میرے پیارے بچے! ایمان کا لطف تجھے حاصل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو علم تجھے ہے اس کی تہہ تک تو نہیں پہنچ سکتا جب تک تیرا ایمان تقدیر کی بھلائی برائی پر پکا نہ ہو، میں نے پوچھا: ابا جی! میں یہ کیسے معلوم کر سکتا ہوں کہ میرا ایمان تقدیر کے خیر و شر پر پختہ ہے؟ فرمایا: اس طرح کہ تجھے یقین ہو کہ جو تجھے نہ ملا، وہ ملنے والا ہی نہیں اور جو تجھے پہنچا، وہ ٹلنے والا ہی نہ تھا، میرے بچو سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے فرمایا ”لکھ“ پس وہ اسی وقت چل پڑا اور قیامت تک جو ہونے والا تھا سب لکھ ڈالا، اے بیٹے! اگر تو انتقال کے وقت تک اس عقیدے پر نہ رہے تو تو جہنم میں داخل ہو گا ۔ [سنن ترمذي:2155،قال الشيخ الألباني:صحیح] ترمذی میں یہ حدیث ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں حسن صحیح غریب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ چار باتوں پر اس کا ایمان نہ ہو، گواہی دے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں جسے اس نے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور مرنے کے بعد جینے پر ایمان رکھے اور تقدیر کی بھلائی برائی منجانب اللہ ہونے کو مانے۔“ [سنن ترمذي:2145،قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی «وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ» [11-هود:7] جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ [صحیح مسلم:2653] امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں۔
پھر پروردگار عالم اپنی چاہت اور احکام کے بےروک و ٹوک جاری اور پورا ہونے کو بیان فرماتا ہے کہ جس طرح جو کچھ میں نے مقدر کیا ہے وہ اگر وہی ہوتا ہے، تو ٹھیک اسی طرح، جس کام کا میں ارادہ کروں صرف ایک دفعہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے، دوبارہ تاکیدًا حکم دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، ایک آنکھ جھپکنے کے برابر وہ کام میری حسب چاہت ہو جاتا ہے۔ عرب شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے «اذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولةً فیکون» یعنی اللہ تعالیٰ جب کبھی جس کسی کام کا ارادہ کرتا ہے صرف فرما دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔