قرآن مجيد

سورة النجم
إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى[16]
جب اس بیری کو ڈھانپ رہا تھا جو ڈھانپ رہا تھا۔[16]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 8، 9، 10، 11، 12، 13، 14، 15، 16، 17، 18،

جبرائیل علیہ السلام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبب ہونا ٭٭

پھر فرماتا ہے کہ ” جبرائیل، نبی (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے قریب ہوئے اور زمین کی طرف اترے یہاں تک کہ نبی (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اور جبرائیل کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیکی ہو گئی۔ “

یہاں لفظ «أَوْ» جس کی خبر دی جاتی ہے اس کے ثابت کرنے کے لیے آیا ہے اور اس پر جو زیادتی ہو اس کے نفی کے لیے۔

جیسے اور جگہ ہے ” پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے پس وہ مثل پتھروں کے ہیں “ «ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِّن بَعْدِ ذلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً» [2-البقرة:74] ‏‏‏‏ ” بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت“ «أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً» یعنی ” پتھر سے کم کسی صورت میں نہیں بلکہ اس سے بھی سختی میں بڑھے ہوئے ہیں۔ “

ایک اور فرمان ہے «يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً» [4-النساء:77] ‏‏‏‏ ” وہ لوگوں سے ایسا ڈرتے ہیں جیسا کہ اللہ سے “ «أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً» ” بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ “

اور جگہ ہے «وَأَرْسَلْنَـهُ إِلَى مِاْئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ» [37-الصفات:147] ‏‏‏‏ ” ہم نے انہیں ایک لاکھ کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ کی طرف “ یعنی وہ ایک لاکھ سے کم تو تھے ہی نہیں بلکہ حقیقتًا وہ ایک لاکھ تھے یا «أَوْ يَزِيدُونَ» ” اس سے زیادہ ہی زیادہ۔ “

پس اپنی خبر کی تحقیق ہے شک و تردّد کے لیے نہیں۔ خبر میں اللہ کی طرف سے شک کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتا۔ یہ قریب آنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے جیسے ام المؤمنین عائشہ، ابن مسعود، ابوذر ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فرمان ہے اور اس بابت کی حدیثیں بھی عنقریب ہم وارد کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔

صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا جن میں سے ایک کا بیان اس آیت «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى» [53-النجم:8] ‏‏‏‏ میں ہے۔ [صحیح مسلم:286] ‏‏‏‏

سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی معراج کی حدیث میں ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العزت قریب ہوا اور نیچے آیا اور اسی لیے محدثین نے اس میں کلام کیا ہے اور کئی ایک غرابتیں ثابت کی ہیں اور اگر ثابت ہو جائے کہ یہ صحیح ہے تو بھی دوسرے وقت اور دوسرے واقعہ پر محمول ہو گی اس آیت کی تفسیر نہیں کہی جا سکتی۔

یہ واقعہ تو اس وقت کا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے نہ کہ معراج والی رات کا۔ کیونکہ اس کے بیان کے بعد ہی فرمایا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ہے۔ پس یہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھنا تو واقعہ معراج کا ذکر ہے اور پہلی مرتبہ کا دیکھنا یہ زمین پر تھا۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:508/11:] ‏‏‏‏

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء نبوت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضروری حاجت سے فارغ ہونے کے لیے نکلے تو سنا کہ کوئی آپ کا نام لے کر آپ کو پکار رہا ہے ہر چند دائیں بائیں دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر کی طرف دیکھا، تو دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے دونوں پاؤں میں سے ایک کو دوسرے سمیت موڑے ہوئے آسمان کے کناروں کو روکے ہیں، قریب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دہشت زدہ ہو جائیں کہ فرشتے نے کہا: میں جبرائیل ہوں، میں جبرائیل ہوں ڈرو نہیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضبط نہ ہو سکا، بھاگ کر لوگوں میں چلے آئے، اب جو نظریں ڈالیں تو کچھ دکھائی نہ دیا، پھر یہاں سے نکل کر باہر گئے اور آسمان کی طرف نظر ڈالی تو پھر جبرائیل علیہ السلام اسی طرح نظر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خوف زدہ لوگوں کے مجمع میں آ گئے تو یہاں کچھ بھی نہیں باہر نکل کر پھر جو دیکھا تو وہی سماں نظر آیا، پس اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ «قَابَ» آدھی انگلی کو بھی کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:32448:ضعیف] ‏‏‏‏ ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام پر دو ریشمی حلے تھے۔

پھر فرمایا ” اس نے وحی کی “ اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف جبرائیل کی معرفت اپنی وحی نازل فرمائی۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس وقت کی وحی آیت «اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى» [93-الضحى:6] ‏‏‏‏ اور آیت «وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ» [94-الشرح:4] ‏‏‏‏ تھی اور حضرات سے مروی ہے کہ اس وقت یہ وحی نازل ہوئی تھی کہ نبیوں پر جنت حرام ہے، جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نہ جائیں اور امتوں پر جنت حرام ہے، جب تک کہ پہلے اس کی امت داخل نہ ہو جائے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے اللہ کو دو دفعہ دیکھا ہے۔ [صحیح مسلم:286] ‏‏‏‏ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھنے کو مطلق رکھا ہے یعنی خواہ دل کا دیکھنا ہو، خواہ ظاہری آنکھوں کا یہ ممکن ہے کہ اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کریں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے دیکھا۔

جن بعض حضرات نے کہا ہے کہ اپنی ان آنکھوں سے دیکھا انہوں نے ایک غریب قول کہا ہے، اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں کوئی چیز صحت کے ساتھ مروی نہیں۔

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، جیسے انس رضی اللہ عنہ، حسن اور عکرمہ رحمہم اللہ ان کے اس قول میں نظر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، میں نے یہ سن کر کہا: پھر یہ آیت کہاں جائے گی جس میں فرمان ہے «لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ» [6-الانعام:103] ‏‏‏‏ ” اسے کوئی نگاہ نہیں پا سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ “ آپ نے جواب دیا کہ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اپنے نور کی پوری تجلی کرے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ اپنے رب کو دیکھا۔ [سنن ترمذي:3279،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے۔

ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ملاقات سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور انہیں پہچان کر ان سے ایک سوال کیا جو ان پر بہت گراں گزرا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہمیں بنو ہاشم نے یہ خبر دی ہے تو کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار اور اپنا کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا، موسیٰ علیہ السلام سے دو مرتبہ باتیں کیں اور نبی کریم کو دو مرتبہ اپنا دیدار کرایا۔

ایک مرتبہ مسروق رحمہ اللہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو نے تو ایسی بات کہہ دی کہ جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میں نے کہا: مائی صاحبہ قرآن کریم فرماتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی نشانیاں دیکھیں آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہاں جا رہے ہو؟ سنو اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام کا دیکھنا ہے جو تم سے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے کسی فرمان کو چھپا لیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ باتوں میں سے کوئی بات جانتے تھے یعنی قیامت کب قائم ہو گی؟ بارش کب اور کتنی برسے گی؟ ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ؟ کون کل کیا کرے گا؟ کون کہاں مرے گا؟ اس نے بڑی جھوٹ بات کہی اور اللہ پر بہتان باندھا، بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اللہ کے اس جبرائیل امین علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک تو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک مرتبہ جیاد میں ان کے چھ سو پر تھے اور آسمان کے کل کنارے انہوں نے بھر رکھے تھے۔ [سنن ترمذي:3278،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

نسائی میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ خلت ابراہیم علیہ السلام کے لیے تھی اور کلام موسی علیہ السلام کے لیے اور دیدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ [سنن نسائی:11539،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سراسر نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ [صحیح مسلم:291] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے میں نے نور دیکھا۔ [صحیح مسلم:291] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ نے آیت «مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى» [53-النجم:11] ‏‏‏‏ پڑھی۔ [ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے میں نے اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا، ہاں دل سے دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى» [53-النجم:8] ‏‏‏‏ پڑھی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:32452:ضعیف] ‏‏‏‏

عکرمہ رحمہ اللہ سے آیت «مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى» [53-النجم:11] ‏‏‏‏ کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر دیکھا۔ سائل نے پھر حسن رحمہ اللہ سے بھی سوال کیا تو آپ نے فرمایا: اس کے جلال عظمت اور چادر کبریائی کو دیکھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ یہ جواب دینا بھی مروی ہے کہ میں نے نہر دیکھی اور نہر کے پیچھے پردہ دیکھا اور پردے کے پیچھے نور دیکھا اس کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:258/12:ضعیف و مرسل] ‏‏‏‏ یہ حدیث بھی بہت غریب ہے۔

ایک حدیث مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے۔ اس کی اسناد شرط صحیح پر ہے لیکن یہ حدیث حدیث خواب کا مختصر ٹکڑا ہے۔ [مسند احمد:285/1:صحیح] ‏‏‏‏

چنانچہ مطول حدیث میں ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آج کی رات آیا (‏‏‏‏راوی کہتا ہے میرے خیال میں) خواب میں آیا اور فرمایا: اے محمد! جانتے ہو بلند مقام والے فرشتے کس مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو بازوؤں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی، پس زمین و آسمان کی ہر چیز مجھے معلوم ہو گئی، پھر مجھ سے وہی سوال کیا، میں نے کہا اب مجھے معلوم ہو گیا، وہ ان نیکیوں کے بارے میں جو گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور جو درجے بڑھاتی ہیں، آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں، مجھ سے حق جل شانہ نے پوچھا: اچھا پھر تم بھی بتاؤ، کفارے کی نیکیاں کیا کیا ہیں؟ میں نے کہا نمازوں کے بعد میں، مسجدوں میں رکے رہنا، جماعت کے لیے چل کر آنا۔ جب وضو ناگوار گزرتا ہو اچھی طرح مل مل کر وضو کرنا۔ جو ایسا کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا اور خیر کے ساتھ انتقال ہو گا اور گناہوں سے اس طرح الگ ہو جائے گا جیسے آج دنیا میں آیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب نماز پڑھو یہ کہو «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي، وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ» یعنی یا اللہ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے برائیوں کے چھوڑنے مسکینوں سے محبت رکھنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، تو جب اپنے بندوں کو فتنے میں ڈالنا چاہے، تو مجھے فتنے میں پڑنے سے پہلے ہی اپنی طرف اٹھا لینا، فرمایا اور درجے بڑھانے والے اعمال یہ ہیں، کھانا کھلانا، سلام پھیلانا، لوگوں کی نیند کے وقت رات کو تہجد کی نماز پڑھنا [مسند احمد:368/1:صحیح] ‏‏‏‏ اسی کی مثل روایت سورۃ ص مکی کی تفسیر کے خاتمے پر گزر چکی ہے۔

ابن جریر میں یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے جس میں غربت والی زیادتی اور بھی بہت سی ہے اس میں کفارے کے بیان میں ہے کہ جمعہ کی نماز کے لیے پیدل چلنے کے قدم، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار، میں نے کہا: یا اللہ! تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور موسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلیم بنایا اور یہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا اور تیرا بوجھ ہٹا نہیں دیا؟ اور فلاں اور فلاں احسان تیرے اوپر نہیں کئے؟ اور دیگر ایسے ایسے احسان بتائے کہ تمہارے سامنے ان کے بیان کی مجھے اجازت نہیں۔ اسی کا بیان ان آیتوں «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى» الخ [53-النجم:8] ‏‏‏‏، میں ہے پس اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کا نور میرے دل میں پیدا کر دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:12463:ضعیف] ‏‏‏‏ اس کی اسناد ضعیف ہے۔

اوپر عتبہ بن ابولہب کا یہ کہنا کہ میں اس قریب آنے اور نزدیک ہونے والے کو نہیں مانتا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے لیے بد دعا کرنا اور شیر کا اسے پھاڑ کھانا بیان ہو چکا ہے۔ یہ واقعہ زرقا میں یا سراۃ میں ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما دی تھی کہ یہ اس طرح ہلاک ہو گا۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبرائیل علیہ السلام کو دوبارہ دیکھنا بیان ہو رہا ہے جو معراج والی رات کا واقعہ ہے۔ معراج کی حدیثیں نہایت تفصیل کے ساتھ سورۃ سبحٰان کی شروع آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہیں جن کے دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی بیان گزر چکا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما معراج والی رات دیدار باری تعالیٰ کے ہونے کے قائل ہیں۔ ایک جماعت سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہت سی جماعتیں اس کے خلاف ہیں اسی طرح تابعین اور دوسرے بھی اس کے خلاف ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبرائیل علیہ السلام کو پروں سمیت دیکھنا وغیرہ اس قسم کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسروق رضی اللہ عنہ کا پوچھنا اور آپ رضی اللہ عنہا کا جواب بھی ابھی بیان ہوا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے اس جواب کے بعد آیت «لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ» [6-الأنعام:103] ‏‏‏‏، کی تلاوت کی اور آیت «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ» [42-الشورى:51] ‏‏‏‏ کی بھی تلاوت فرمائی یعنی ” کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے کسی انسان سے اللہ کا کلام کرنا ممکن نہیں۔ “ ہاں وحی سے یا پردے کے پیچھے سے ہو تو اور بات ہے۔

پھر فرمایا جو تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کل کی بات کا علم تھا اس نے غلط اور جھوٹ کہا، پھر آیت «إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ» [31-لقمان:34] ‏‏‏‏ آخر تک پڑھی۔ اور فرمایا جو کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کسی بات کو چھپا لیا اس نے بھی جھوٹ کہا اور تہمت باندھی اور پھر آیت «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ» [5-المائدہ:67] ‏‏‏‏ پڑھی یعنی ” اے رسول! جو تمہاری جانب تمہارے رب کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو۔ “ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ [مسند احمد:49/6:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ مسروق رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سورۃ النجم کی آیت «وَهُوَ بالْاُفُقِ الْاَعْلٰى» [53-النجم:7] ‏‏‏‏ اور «وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ» [81-التكوير:23] ‏‏‏‏ پڑھیں اس کے جواب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس امت میں سب سے پہلے ان آیتوں کے متعلق خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سوال کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے مراد میرا جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو دفعہ اس امین اللہ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے، ایک مرتبہ آسمان سے زمین پر آتے ہوئے اس وقت تمام خلاء ان کے جسم سے پر تھا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:4855] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے عبداللہ بن شفیق نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات ضرور پوچھتا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا پوچھتے؟ کہا: یہ کہ آپ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ سوال تو خود میں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا؟ [مسند احمد:147/5:صحیح] ‏‏‏‏ صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے دونوں کے الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ [صحیح مسلم:186] ‏‏‏‏

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس حدیث کی کیا توجیہ کروں دل اس پر مطمئن نہیں۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے دیدار کیا ہے آنکھوں سے نہیں۔

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن شفیق رحمہ اللہ اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ممکن ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ سوال معراج کے واقعہ سے پہلے کا ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ جواب دیا ہو۔ اگر یہ سوال معراج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا تو ضرور آپ اس کے جواب میں ہاں فرماتے انکار نہ کرتے۔ لیکن یہ قول سرتاپا ضعیف ہے اس لیے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال قطعاً معراج کے بعد تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس وقت بھی انکار میں ہی رہا۔

بعض حضرات نے فرمایا کہ ان سے خطاب ان کی عقل کے مطابق کیا گیا یا یہ کہ ان کا یہ خیال غلط ہے چنانچہ ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں یہی لکھا ہے دراصل یہ محض خطا ہے اور بالکل غلطی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

سیدنا انس اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دل سے تو دیکھا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، ہاں جبرائیل علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر اس وقت فرشتے بکثرت تھے اور نور ربانی اس پر جگمگا رہا تھا اور قسم قسم کے رنگ جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں معراج والی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان پر ہے، زمین سے جو چیزیں چڑھتی ہیں وہ یہیں تک چڑھتی ہیں، پھر یہاں سے اٹھا لی جاتی ہیں اسی طرح جو چیزیں اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں یہیں تک پہنچتی ہیں پھر یہاں سے پہنچائی جاتی ہیں اس وقت اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں لدی ہوئی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تین چیزیں عطا فرمائی گئیں پانچوں وقت کی نمازیں سورۃ البقرہ کی خاتمہ کی آیتیں اور آپ کی امت میں سے جو مشرک نہ ہو اس کے گناہوں کی بخشش۔ [صحیح مسلم:279] ‏‏‏‏

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یا کسی اور صحابی سے روایت ہے کہ جس طرح کوے کسی درخت کو گھیر لیتے ہیں، اسی طرح اس وقت سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتے چھا رہے تھے، وہاں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ” جو مانگنا ہو مانگو۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:32524] ‏‏‏‏

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس درخت کی شاخیں مروارید، یاقوت اور زبرجد کی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور اپنے دل کی آنکھوں سے اللہ کی بھی زیارت کی۔

ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ آپ نے سدرہ پر کیا دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھانکے ہوئے تھیں اور ہر ایک پتے پر ایک ایک فرشتہ کھڑا ہوا اللہ کی تسبیح کر رہا تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:32519] ‏‏‏‏

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں دائیں بائیں نہیں ہوئیں جس چیز کے دیکھنے کا حکم تھا وہیں لگی رہیں۔ ثابت قدمی اور کامل اطاعت کی یہ پوری دلیل ہے کہ جو حکم تھا وہی بجا لائے، جو دئیے گئے وہی لے کر خوش ہوئے، اسی کو ایک ناظم نے تعریفاً کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں جیسے اور جگہ ہے «لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى» [20-طه:23] ‏‏‏‏ ” اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں جو ہماری کامل قدرت اور زبردست عظمت پر دلیل بن جائیں۔“

ان دونوں آیتوں کو دلیل بنا کر اہل سنت کا مذہب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات اللہ کا دیدار اپنی آنکھوں سے نہیں کیا کیونکہ ارشاد باری ہے کہ آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، اگر خود اللہ کا دیدار ہوا ہوتا، تو اسی دیدار کا ذکر ہوتا اور لوگوں پر سے اسے ظاہر کیا جاتا۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول گزر چکا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر دوسری دفعہ آسمان پر چڑھتے وقت جبرائیل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔ پس جبکہ جبرائیل علیہ السلام نے اپنے رب عزوجل کو خبر دی اپنی اصلی صورت میں عود کر گئے اور سجدہ ادا کیا، پس سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دوبارہ دیکھنے سے انہی کا دیکھنا مراد ہے یہ روایت مسند احمد میں ہے اور غریب ہے۔ [مسند احمد:407/1:ضعیف] ‏‏‏‏