قرآن مجيد

سورة الذاريات
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ[24]
کیا تیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات آئی ہے؟[24]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 24، 25، 26، 27، 28، 29، 30،

مہمان اور میزبان ؟ ٭٭

یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بشکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے۔

حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ علیہ السلام نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے۔

اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے «وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُ‌دُّوهَا إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا» [4-النساء:86] ‏‏‏‏ یعنی ” جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم از کم اتنا ہی “۔

پس خلیل اللہ علیہ السلام نے افضل صورت کو اختیار کیا ابراہیم علیہ السلام چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناشناسا ہیں۔ یہ فرشتے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام تھے۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا۔

ابراہیم علیہ السلام اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں؟

اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں: آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم، احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” خلیل اللہ (‏‏‏‏علیہ السلام) اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے “۔

جیسے کہ اور آیت میں ہے «فَلَمَّا رَ‌أَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَ‌هُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْ‌سِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ وَامْرَ‌أَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْ‌نَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَ‌اءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ» [11-هود:71-70] ‏‏‏‏، یعنی ” آپ (‏‏‏‏علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا: ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں “، آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ ” تمہارے ہاں اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں یعقوب “۔

اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا: ہائے افسوس! اب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے، فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو؟ خصوصاً تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے۔‏‏‏‏ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ ” بشارت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے “۔

پھر فرماتا ہے ” یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دو ہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا؟ “

اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں، وہ حکمت والا اور علم والا ہے، تم جس عزت و کرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہو گا اس کا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے۔

«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» ! «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے تفسیر محمدی کا چھبیسواں پارہ حم بھی ختم ہوا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے کلام پاک کا صحیح اور حقیقی مطلب سمجھائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ اے پروردگار علم جس طرح تو نے مجھ پر اپنا یہ فضل کیا ہے کہ اپنے کلام کی خدمت مجھ سے لی اسی طرح یہ بھی فضل کر کہ اسے قبول فرما اور میرے لیے باقیات صالحات میں اسے کر لے۔ اور اس تفسیر کو میری تقصیر کی معافی کا سبب بنا دے اپنے تمام بندوں کو اس سے فائدہ پہنچا اور سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما۔ «آمین»