جن سورتوں کو مفصل کی سورتیں کہا جاتا ہے ان میں سب سے پہلی سورت یہی ہے، گو ایک قول یہ بھی ہے کہ مفصل کی سورتیں سورۃ الحجرات سے شروع ہوتی ہیں یہ بالکل بے اصل بات ہے، علماء میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں، مفصل کی سورتوں کی پہلی سورت یہی ہے، اس کی دلیل ابوداؤد کی یہ حدیث ہے جو [ باب تحریب القران ] میں ہے۔ سیدنا اوس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وفد ثقیف میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ہاں ٹھہرے اور بنو مالک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبے میں ٹھہرایا۔ فرماتے ہیں: ہر رات عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے اور کھڑے کھڑے ہمیں اپنی باتیں سناتے یہاں تک کہ آپ کو دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے قدموں کو بدلنے کی ضرورت پڑتی، کبھی اس قدم کھڑے ہوتے، کبھی اس قدم پر، عموماً آپ ہم سے وہ واقعات بیان کرتے جو آپ کو اپنی قوم قریش سے سہنے پڑے تھے، پھر فرماتے کوئی حرج نہیں ہم مکے میں کمزور تھے بے وقعت تھے۔ پھر ہم مدینے میں آ گئے اب ہم میں ان میں لڑائی ڈولوں کے مثل ہے کبھی ہم ان پر غالب، کبھی وہ ہم پر، غرض ہر رات یہ لطف صحبت رہا کرتا تھا، ایک رات کو وقت ہو چکا اور آپ نہ آئے۔ بہت دیر کے بعد تشریف لائے ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! آج تو آپ کو بہت دیر ہو گئی، آپ نے فرمایا: ”ہاں قرآن کا جو حصہ روزانہ پڑھا کرتا تھا آج اس وقت اسے پڑھا اور ادھورا چھوڑ کر آنے کو جی نہ چاہا“۔
سیدنا اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تم قرآن کے حصے کسی طرح کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلی تین سورتوں کی ایک منزل، پھر پانچ سورتوں کی ایک منزل، پھر سات سورتوں کی ایک منزل، پھر نو سورتوں کی ایک منزل، پھر گیارہ سورتوں کی ایک منزل، پھر تیرہ سورتوں کی ایک منزل اور مفصل کی سورتوں کی ایک منزل۔ (سنن ابوداود:1393،قال الشيخ الألباني:ضعیف) یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے
پس پہلی چھ منزلوں کی کل اڑتالیس سورتیں ہوئیں پھر ان کے بعد مفصل کی تمام سورتوں کی ایک منزل تو انچاسویں سورت یہی سورۃ ق پڑتی ہے۔ باقاعدہ گنتی سنئیے۔ پہلی منزل کی تین سورتیں البقرہ، آل عمران اور النساء ہوئیں۔ دوسری منزل کی پانچ سورتیں المائدہ، الانعام، الاعراف، الانفال اور التوبہ ہوئیں۔ تیسری منزل کی سات سورتیں یونس، ہود، یوسف، الرعد، ابراہیم، الحجر، اور النحل ہوئیں۔ چوتھی منزل کی نو سورتیں الاِسراء، الکہف، مریم، طہٰ، الانبیاء، الحج، المومنون، النور اور الفرقان ہوئیں۔ پانچویں منزل کی گیارہ سورتیں الشعراء، النمل، القصص، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدہ، الاحزاب، سبا، فاطر، اور یٰسین ہوئیں۔ چھٹی منزل کی تیرہ سورتیں الصافات، ص، الزمر، غافر، فصلت، الشوریٰ، الزخرف، الدخان، الجاثیہ، الاحقاف، محمد، الفتح اور الحجرات ہوئیں۔ اب ساتویں منزل مفصل کی سورتیں باقی رہیں جو الحجرات کے بعد کی سورت سے شروع ہوں گی اور وہ سورۃ ق ہے۔ اور یہی ہم نے کہا تھا۔ «فالحمداللہ»
مسلم شریف میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عید کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: سورۃ ق اور سورۃ القمر «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» الخ (صحیح مسلم:891)
مسلم میں ہے سیدہ ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو سال تک یا ایک سال کچھ ماہ تک ایک ہی دستور رہا میں نے سورۃ ق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن سن کر یاد کر لیا، اس لیے کہ ہر جمعہ کے دن جب آپ لوگوں کو خطبہ سنانے کیلئے منبر پر آتے تو اس سورت کی تلاوت کرتے۔ (صحیح مسلم:873-45)
الغرض بڑے بڑے مجمع کے موقع پر جیسے عید ہے جمعہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت کی تلاوت کرتے کیونکہ اس میں ابتداء خلق کا، مرنے کے بعد جینے کا، اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا، حساب کتاب کا، جنت دوزخ کا ثواب عذاب اور رغبت و ڈراوے کا ذکر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
«ق» حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے «ص، ن، الم، حم، طس»، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورۃ البقرہ کی تفسیر میں شروع میں کر دی ہے۔
بعض سلف کا قول ہے کہ قاف ایک پہاڑ ہے زمین کو گھیرے ہوئے ہے، میں تو جانتا ہوں کہ دراصل یہ بنی اسرائیل کی خرافات میں سے ہے جنہیں بعض لوگوں نے لے لیا۔ یہ سمجھ کر کہ یہ روایت لینا مباح ہے گو تصدیق تکذیب نہیں کر سکتے۔
اہل کتاب کی موضوع روایتیں ٭٭
لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اور اس جیسی اور روایتیں تو بنی اسرائیل کے بددینوں نے گھڑ لی ہوں گی تاکہ لوگوں پر دین کو خلط ملط کر دیں، آپ خیال کیجئے کہ اس امت میں باوجود یہ کہ علماء کرام اور حافظان عظام کی بہت بڑی دیندار مخلص جماعت ہر زمانے میں موجود ہے تاہم بددینوں نے بہت تھوڑی مدت میں موضوع احادیث تک گھڑ لیں۔
پس بنی اسرائیل جن پر مدتیں گزر چکیں، جو حفظ سے عاری تھے، جن میں نقادان فن موجود نہ تھے، جو کلام اللہ کو اصلیت سے ہٹا دیا کرتے تھے، جو شرابوں میں مخمور رہا کرتے تھے، جو آیات اللہ کو بدل ڈالا کرتے تھے، ان کا کیا ٹھیک ہے؟ پس حدیث نے جن روایات کو ان سے لینا مباح رکھا ہے یہ وہ ہیں جو کم از کم عقل و فہم میں تو آ سکیں، نہ وہ جو صریح خلاف عقل ہوں، سنتے ہی ان کے باطل اور غلط ہونے کا فیصلہ عقل کر دیتی ہو اور اس کا جھوٹ ہونا اتنا واضح ہو کہ اس پر دلیل لانے کی ضرورت نہ پڑے۔
پس مندرجہ بالا روایات بھی ایسی ہی ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ افسوس کہ بہت سلف و خلف نے اہل کتاب سے اس قسم کی حکایتیں قرآن مجید کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں دراصل قرآن کریم ایسی بےسروپا باتوں کا کچھ محتاج نہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
یہاں تک کہ امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے بھی یہاں ایک عجیب و غریب اثر بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وارد کر دیا ہے جو ازروے سند ثابت نہیں۔ اس میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک سمندر پیدا کیا ہے جو اس ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس سمندر کے پچھے ایک پہاڑ ہے جو اس کو روکے ہوئے ہے اس کا نام قاف ہے، آسمان اور دنیا اسی پر اٹھا ہوا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کے پیچھے ایک زمین بنائی ہے جو اس زمین سے سات گنا بڑی ہے، پھر اس کے پیچھے ایک سمندر ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے، پھر اس کے پیچھے پہاڑ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اسے بھی قاف کہتے ہیں دوسرا آسمان اسی پر بلند کیا ہوا ہے اسی طرح سات زمینیں، سات سمندر، سات پہاڑ اور سات آسمان گنوائے۔ پھر یہ آیت پڑھی «وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» [31-لقمان:27] اس اثر کی اسناد میں انقطاع ہے۔ [ضعیف و منقطع]
علی بن ابوطلحہ جو روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کرتے ہیں اس میں ہے کہ «ق» اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ق» بھی مثل «ص، ن، طس، الم» وغیرہ کے حروف ہجا میں سے ہے۔
پس ان روایات سے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان ہونا اور بعید ہو جاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے قسم اللہ کی اور «ق» کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر۔
جیسے شاعر کہتا ہے۔ «قلت لھا قفی فقالت ق» لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہیئے اور یہاں کون سا کلام ہے؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جس کے آگے سے یا پیچھے سے باطل نہیں آ سکتا، جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
اس قسم کا جواب کیا ہے؟ اس میں بھی کئی قول ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب «قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ» [50-ق:4] پوری آیت تک ہے۔
لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دوبارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو قسم لفظوں سے اس کا جواب نہ بتاتی ہو ایسا قرآن کی قسموں کے جواب میں اکثر ہے جیسے کہ سورۃ ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے، اسی طرح یہاں بھی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا؟ جیسے اور آیت میں ہے «اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ» [10-يونس:2] یعنی ” کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے۔ “ یعنی دراصل یہ کوئی تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لیے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے۔
اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر، ریزہ ریزہ ہو کر، مٹی ہو جائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت، چمڑے، ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے، ہمارے علم میں ہے۔ پھر پروردگار عالم ان کے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آ جانے کے بعد اس کا انکار کر دیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے، «مریج» کے معنی ہیں مختلف، مضطرب، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے «اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ» [51-الذاريات:8] یعنی ” یقیناً تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو۔ “ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔