قرآن مجيد

سورة الحجرات
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[14]
بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمھیں تمھارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔[14]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 14، 15،

ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں ٭٭

کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے حالانکہ دراصل ان کے دل میں اب تک ایمان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دعوے سے روکتا ہے یہ کہتے تھے ہم ایمان لائے۔ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ ان کو کہئیے اب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے یعنی اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے نبی کی اطاعت میں آئے ہیں۔

اس آیت نے یہ فائدہ دیا کہ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے جیسے کہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے، جبرائیل علیہ السلام والی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں پھر احسان کے بارے میں۔ پس وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے گئے عام سے خاص کی طرف آئے اور پھر خاص سے اخص کی طرف آئے۔

مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو عطیہ اور انعام دیا اور ایک شخص کو کچھ بھی نہ دیا اس پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ وہ مومن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان؟ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے، سعد رضی اللہ عنہ نے یہی کہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی جواب دیا پھر فرمایا: اے سعد! میں لوگوں کو دیتا ہوں اور جو ان میں مجھے بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے نہیں دیتا ہوں، دیتا ہوں اس ڈر سے کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ گر پڑیں ۔ [صحیح بخاری:27] ‏‏‏‏ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔

پس اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن و مسلم میں فرق کیا اور معلوم ہو گیا کہ ایمان زیادہ خاص ہے بہ نسبت اسلام کے۔ ہم نے اسے مع دلائل صحیح بخاری کی «کتاب الایمان» کی شرح میں ذکر کر دیا ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»

اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ شخص مسلمان تھے منافق نہ تھے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی عطیہ عطا نہیں فرمایا اور اسے اس کے اسلام کے سپرد کر دیا۔

پس معلوم ہوا کہ یہ اعراب جن کا ذکر اس آیت میں ہے منافق نہ تھے، تھے تو مسلمان لیکن اب تک ان کے دلوں میں ایمان صحیح طور پر مستحکم نہ ہوا تھا اور انہوں نے اس بلند مقام تک اپنی رسائی ہو جانے کا ابھی سے دعویٰ کر دیا تھا اس لیے انہیں ادب سکھایا گیا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابراہیم نخعی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کے قول کا یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ہمیں یہ سب یوں کہنا پڑا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ منافق تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل مومن نہ تھے (‏‏‏‏یہ یاد رہے ایمان و اسلام میں فرق اس وقت ہے جبکہ اسلام اپنی حقیقت پر نہ ہو جب اسلام حقیقی ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس وقت ایمان اسلام میں کوئی فرق نہیں) اس کے بہت سے قوی دلائل امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں «کتاب الایمان» میں بیان فرمائے ہیں اور ان لوگوں کا منافق ہونا اس کا ثبوت بھی موجود ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏مترجم)

سعید بن جبیر، مجاہد، ابن زید رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلکہ تم «اَسْلَمْنَا» کہو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم قتل اور قید بند ہونے سے بچنے کے لیے تابع ہو گئے ہیں۔

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنو اسد بن خزیمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اب تک وہاں پہنچے نہ تھے پس انہیں ادب سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اب تک ایمان تک نہیں پہنچے اگر یہ منافق ہوتے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اور ان کی رسوائی کی جاتی جیسے کہ سورۃ برات میں منافقوں کا ذکر کیا گیا لیکن یہاں تو انہیں صرف ادب سکھایا گیا۔

پھر فرماتا ہے ” اگر تم اللہ اور اس کے رسول کے فرماں بردار رہو گے تو تمہارے کسی عمل کا اجر مارا نہ جائے گا “۔

جیسے فرمایا «وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِ‌ئٍ بِمَا كَسَبَ رَ‌هِينٌ» [52-الطور:21] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے ان کے اعمال میں سے کچھ بھی نہیں گھٹایا “۔

پھر فرمایا ” جو اللہ کی طرف رجوع کرے برائی سے لوٹ آئے اللہ اس کے گناہ معاف فرمانے والا اور اس کی طرف رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے والا ہے “۔

پھر فرماتا ہے کہ کامل ایمان والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر دل سے یقین رکھتے ہیں پھر نہ شک کرتے ہیں، نہ کبھی ان کے دل میں کوئی نکما خیال پیدا ہوتا ہے بلکہ اسی خیال تصدیق پر اور کامل یقین پر جم جاتے ہیں اور جمے ہی رہتے ہیں اور اپنے نفس اور دل کی پسندیدہ دولت کو بلکہ اپنی جانوں کو بھی راہ اللہ کے جہاد میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ سچے لوگ ہیں یعنی یہ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو صرف زبان سے ہی ایمان کا دعویٰ کر کے رہ جاتے ہیں۔

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا میں مومن کی تین قسمیں ہیں (‏‏‏‏۱)‏‏‏‏‏‏‏‏ وہ جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے شک شبہ نہ کیا اور اپنی جان اور اپنے مال سے راہ اللہ میں جہاد کیا، (‏‏‏‏۲)‏‏‏‏‏‏‏‏ وہ جن سے لوگوں نے امن پا لیا، نہ یہ کسی کا مال ماریں، نہ کسی کی جان لیں، (‏‏‏‏۳)‏‏‏‏‏‏‏‏ وہ جو طمع کی طرف جب جھانکتے ہیں اللہ عزوجل کی یاد کرتے ہیں ۔ [مسند احمد:8/3:ضعیف] ‏‏‏‏