قرآن مجيد

سورة الفتح
وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا[19]
اور بہت سی غنیمتیں، جنھیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔[19]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 18، 19،

چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان ٭٭

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت الرضوان ہوئی تھی۔ سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر یہ قصہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے بیان کیا۔ تو آپ نے فرمایا: میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے، ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا، پھر سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بیعت کرنے والے تو اس جگہ کو نہ پا سکیں انہیں معلوم نہ ہو لیکن تم لوگ جان لو گویا تم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ جاننے والے ہو ۔ [صحیح بخاری:4163] ‏‏‏‏

پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اوج جاننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کر لیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی۔

یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا، پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہو گیا، پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہوتے چلے گئے۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی۔ اسی لیے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا کی کہ لوگو! بیعت کے لیے آگے بڑھو، روح القدس آ چکے ہیں۔ ہم بھاگے دوڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت «لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا» [48-الفتح:18] ‏‏‏‏ میں ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کر لی، تو ہم نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کر لے، گو کئی سال تک وہاں رہے۔‏‏‏‏ (‏‏‏‏ضعیف: اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں)