سنو! تم وہ لوگ ہو کہ تم بلائے جاتے ہو، تاکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو،توتم میں سے کچھ وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے اور اللہ ہی بے پروا ہے اور تم ہی محتاج ہو اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمھاری جگہ تمھارے سوا اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہیں ہوں گے۔[38]
دنیا کی حقارت اور اس کی قلت و ذلت بیان ہو رہی ہے کہ اس سے سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ حاصل نہیں ہاں جو کام اللہ کے لیے کئے جائیں وہ باقی رہ جاتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ذات بے پرواہ ہے تمہارے بھلے کام تمہارے ہی نفع کیلئے ہیں وہ تمہارے مالوں کا بھوکا نہیں اس نے تمہیں جو خیرات کا حکم دیا ہے وہ صرف اس لیے کہ تمہارے ہی غرباء، فقراء کی پرورش ہو اور پھر تم دار آخرت میں مستحق ثواب بنو۔
پھر انسان کے بخل اور بخل کے بعد دلی کینے کے ظاہر ہونے کا حال بیان فرمایا: مال کے نکالنے میں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ مال انسان کو محبوب ہوتا ہے اور اس کا نکالنا اس پر گراں گزرتا ہے۔
پھر بخیلوں کی بخیلی کے وبال کا ذکر ہو رہا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مال کو روکنا دراصل اپنا ہی نقصان کرنا ہے کیونکہ بخیلی کا وبال اسی پر پڑے گا۔ صدقے کی فضیلت اور اس کے اجر سے محروم بھی رہے گا۔ اللہ سب سے غنی ہے اور سب اس کے در کے بھکاری ہیں۔ غناء اللہ تعالیٰ کا وصف لازم ہے اور احتیاج مخلوق کا وصف لازم ہے، نہ یہ اس سے کبھی الگ ہوں، نہ وہ اس سے۔
پھر فرماتا ہے ” اگر تم اس کی اطاعت سے روگرداں ہو گئے اس کی شریعت کی تابعداری چھوڑ دی تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور قوم لائے گا جو تم جیسی نہ ہو گی بلکہ وہ سننے اور ماننے والے، حکم بردار، نافرمانیوں سے بیزار ہوں گے “۔
ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے بدلے لائے جاتے اور ہم جیسے نہ ہوتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے شانے پر رکھ کر فرمایا: ”یہ اور ان کی قوم اگر دین، ثریا کے پاس بھی ہوتا تو اسے فارس کے لوگ لے آتے“۔ [صحیح مسلم:2546] ، اس کے ایک راوی مسلم بن خالد زنجی کے بارے میں بعض ائمہ جرح تعدیل نے کچھ کلام کیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ محمد کی تفسیر ختم ہوئی۔